ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۳
مذہب اور انسان
حضرت الحاج مولاناکبیرالدین فاران صاحب المظاہری ، ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ الفاران
یہ وسیع و عریض کائنات، دنیا کے یہ حسین نظارے،مسکراتی کلیاں، لہلہاتے پھول اور پودے،ابلتے چشمے، بل کھاتی ندیاں، سمندر کی مست لہریں،خاموش جھیلیں،پہاڑوں سے گرتی آبشاریں اور زمین کی گونا گوں گلکاریاں صنّاعی قدرت دیکھئے!تو معلوم ہو گا کہ ان سب میں حسین، دلآویز اور پر کشش انسان کی تخلیق ہے۔
باغِ ہستی کی ساری بہاریں اور تمام چیزیں اسکی خدمت کے لئے پیدا کی گئیں ہیں یہ اسکا کھلا ثبوت ہے کہ انسان کل مخلوقات میں ممتاز و اشرف ہے۔ اسلئے اکہ انسان میں خیر و شر کا شعور ہے،نیکی وبدی کی تمیز ہے حق و باطل میں فرق کی صلاحیت ہے اور علم و حکمت کے کمالات ہیں۔ ان سب میں اہم اس کے پاس ایک دل ہے جس میں کائنات کا فکر و غم ہے۔محبت الٰہی کا سر چشمہ ہے جس سے دوسری مخلوقات محروم ہیں
اگر انسان ان قیمتی اوصاف سے محروم ہو جائے، انسانیت کی تمیز کھو بیٹھے تو وہ آدمی نما حیوان ہو جاتا ہے جن سے عام طور پر شیطانی حرکات ظاہر ہونے لگتی ہیں، کبھی کبھیتو اسکے اثرات سے آتش فشاں پھوٹ پڑتے ہیں،بستیوں کی بستیاں اجڑ جاتی ہیں،ہزاروں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ آسمان انگارے اگل رہا ہو، زمین شعلوں کی زبان بن گئی ہو،فضا ء میں نفرت او رحقارت کا زہر پھیل جاتا ہے۔ درندگی اوربربریت کی اس انتہا پر حضرت انسان شیطان سے بدتر ہو جاتا ہے انسان کی گراوٹ پر اسلام انجم سہارنپوری نے یوں ماتم کیا ہے۔جب اپنی بلندی سے، انسان اتر جائے
ایک بوجھ ہے دھرتی کا،بہتر ہے کہ مر جائے
یہ طوفان اور تباہیاں کبھی تو زبان کے نام،کہیں قوم اور علاقہ کے نام پر اور زیادہ تر مذہب و ملت کے عنوان پر ہوتی ہیں۔
ذہنِ انسان کی حدیں، گر اس طرح گھٹتی گئیں
اس زمیں پر سرحدیں،ہی سرحدیں رہ جائیں گی
اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو انسان ظاہری طور پر تو مختلف نظر آتے ہیں لیکن بنیادی طور پر سب کے سب آدم کی اولاد ہیں زبان اور علاقے تو پہچان اور تعارف کا ایک ذریعہ ہیں دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کی بے حرمتی اور ظلم و فساد کی اجازت نہیں دیتا۔
سب سے پہلے مہا تما بدھ:کی تعلیمات پر نظر ڈالئے! اس میں جانوروں پر رحم کرنا،ہنسا نہ کرنا،سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا،ذات پات کا فرق مٹانا، کسی کی بے عزتی نہ کرنا،بغض و کینہ نہ کرنا،ہمیشہ سچ بولنا،شراب نہ پینا جیسے اہم مارگ پر لوگوں کو چلنے کی ہدایت ملتی ہے۔
جین مذہب: کی تعلیمات دیکھئے! مہاویر جی نے غصہ، حسد، لالچ، نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی تعلیم دی۔اہنسا کو تو اتنی اہمیت دی کہ انسان تو انسان کیڑے مکوڑے تک مارنا مہا پاپ قرار دیا۔
ھندو مذہب:میں جگہ جگہ ہدایت کی گئی ہے کہ سچ بولنا،چغلی نہ کرنا، دوسروں کو معاف کرنا، لالچ نہ کرنا،نفرت نہ کرنا، ہنسا نہ کرنا انسان کے لئے کامیابی کا ذریعہ ہے۔
کبیر داس نے کہا ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ پریم اور انس کا برتاؤ کرنا ہی سچا دھرم ہے، سب دھرموں کا پرماتما ایک ہے اور ہم سب اسکی اولاد ہیں سب ہمارے بھائی ہیں۔
چانکیہ نیتی: میں ہے کہ یہ میرا ہے یہ میرا پرایا ہے اس طرح کے بھید بھاؤ تنگ دل والے کرتے ہیں جو مہان ہردے ا ور وسیع القلب ہیں ان کے لئے ساری دھرتی ہی ان کا پریوار ہے۔
بھاگوت گیتا اور رامائن، مذہب اور علاقائی قید سے آزاد ہو کر کچھ بہت اُونچا سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
سکھ مذہب:تو ظلم، لالچ، بغض و حسد سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے خالصہ کی حقیقت یہی ہے کہ آدمی نفرت، کینہ اور حرص سے دل پاک کر کے پرماتما کی محبت اور سچائی کے جزبہ سے سر شار ہو جائے گرو گرنتھ صاحب کے صفحہ۔۵۴۳۱۔ ۰۵ پر ہے۔اول اللہ ور ادپایا، قدرت کے سب ب دے
ایک ور سے سب جگہ او بچیا،کو بھلے کو م دے
گرو نانک جی نے زندگی بھر اُونچ نیچ،ذات پات،کے فرق مٹانے،رحم دلی،ایمانداری اورپیارو محبت کا سبق دیا
وہ کہتے تھے ہندو مسلم، ایک مالا کے منکے ہیں
آپس کے یہ کینے جھگڑے،دھندھے پاگل پن کے ہیں
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسانیت کو یہی تعلیم دی کہ اگر کوئی تمہارے ایک رخسار پر طمانچہ مارے تو دوسرا رخسار بھی پیش کر دو، ظلم اور زیادتی سے باز آجاؤ۔
مذہبِ اسلام: اپنے پرستاروں کو اس طور پر پابند کیا قرآن شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا زمین پر فساد پھیلا نے والوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے مخلوق میں زیادہ پسندیدہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اس کے بندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!رحم کرنے والون پر خدا رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
رسول خدا کی پوری زندگی اس بات کی شہادت ہے کہ آپﷺ نے کسی کا دل نہیں دکھایا،کسی کی بے عزتی و بے حرمتی نہیں کی،گالیاں دینے والو ں کو ہدایت فرمائی،بد دعاء کرنے والوں کو دعاء خیر دی اور زیادتی کرنے والوں کو سینے سے لگایا۔
فرمانِ رسول ہے جو آدمی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہیے کہ وہ اسکو معاف کردے، جس نے اس پر ظلم کیا ہو، اس کے ساتھ رشتہ جوڑے، جس نے اس سے رشتہ توڑا ہو۔
آپ نے تعلیم دی،وہ لوگ اللہ کی رحمتِ خاص سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں،دوسرے کے لئے رحم نہیں جو دوسروں پر رحم نہیں کھاتے۔
در اصل مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو ایذا ء نہ پہنچے، جس سے لوگ اپنی جان و مال عزت و آبرو محفوظ سمجھیں۔آشتی دل بستگی، آپس کی بھائی چارگی
دلنوازی دوستی، ہر دھرم کا پیغام ہے
پیرو پیغمبر کا،اوتاروں کا کہنا ہے یہی
نام پر مذہب کے لڑنا، بزدلوں کا کام ہے
مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ہم وقت اور ماحول کا جا ئزہ لیں تو ہم مذہب سے کوسوں دور نظر آتے ہیں بھلا!جو مذہب انسان تو انسان،کیڑے مکوڑوں کو مارنا مہا پاپ قرار دیتا ہو، جس مذہب میں اہنسا کا مقام اہم ہو،جو مذہب سارے انسانوں کو ایک ہی نور کا پرتو بتائے،جس مذہب میں انسانیت کی بھلائی کا حکم ہو،جس میں دوسرے مذاہب کی عزّت کی تاکید ہو، حتیٰ کہ دشمنوں کی عزت و مال کی حفاظت ایمان کا حصہ بتایا گیا ہو کیا! اس مذہب میں انسان جیسی اشرف المخلوقات پر مظالم ڈھانے، تہہ تیغ کرنے، ان کے خون سے ہولی کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ نہیں کبھی ایسا نہیں ہو سکتا۔
در اصل ہم مذہب کی آڑ میں جس شرمناک طریقہ سے مذہب کو بدنام کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انسان کے اندر دردمندی نہ رہی جو انسانیت کے لئے تڑپ سکے،پہلو میں وہ دل نہیں رہا جو کبھی کسی کے درد میں تڑپ سکے، وہ آنکھ نہ رہی جو غم میں چند قطرے ٹپکا سکے، انسان کا ہاتھ نہیں بھیڑیے کا پنچہ ہے، جو لوگوں کی گردنوں میں پڑتا ہے، آج کا انسان درندوں سے اتنا خا ئف نہیں جتنا وہ انسان سے ڈرتا ہے۔
اسلئے ضرورت ہے کہانسان اپنے مذہبی اصولوں کو سمجھے اور اس پر عمل پیرا ہو کیوں کہ جو شخص اپنے مذ ہب کے اوصاف کو سمجھے گا وہ ملک کا وفادار ہوگا،وہ ایک مکمل انسان اور بہترین شہری بھی ہوگا۔
اگر ہم نے انسانیت کو اپنا کر وقت کے تباہ کن دھارے کو موڑنے کی کوشش نہیں کی، ایک دوسرے کو الفت، پیار اور محبت کا سبق نہیں دیا،تعصب اور ظلم اور فساد کا طریقہ اپنائے رکھا، انسانیت اسی طرح کچلی جاتی رہی بن کھلے پھولوں کو اسی طرح مسلا جاتا رہا،تو وہ دن دور نہیں، جب ہمارا انجام انتہائی دہشت ناک ہوگا اورہمارا کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا ۔اشرف المخلوقات کہلاتے ہو، یوں تو تم مگر
آج تک انسانیت کا‘کیوں لہو پیتے رہے
کاش جی سکتے کبھی،انسان بنکر دہر میں
تم فقط ہندو مسلماں، بن کے ہی جیتے رہے
وقت کا مطالبہ ہے کہ ایسے معاشرہ اور سماج کی تشکیل دی جائے جو ہمارے دل کی برائی،من کے پاپ دھو ڈالے، ٹوٹے دلوں کی محبت اور بھائی چارگی کے مضبوط بندھن میں باندھے،اسکے افراد مخلص اور نیک طینت ہوں، عداوت و دشمنی سے متنفر ہوں اور انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر ہو جو اپنی حکمتِ عملی سے دہکتے شعلوں کو دبا سکیں۔ وہ انسانیت کا ایک مجسمہ ہو، اغراض و تعصب قوم پرستی سے بالکل آزاد اور بے تعلق ہو کر وہ عام انسانوں کے سامنے وہ حقیقتیں پیش کریں جن پر انسانیت کی نجات اور سلامتی موقوف ہے، جن پر ملک کی حفاظت اور ترقی کا انحصار ہے۔
حائل ہوں محبت میں، نفر ت کی جو دیواریں
احساسِ مروّت کے، پھولوں سے سجا ڈالو!
انساں کی محبت کے، خودنقش ابھر آئیں
تہذیب و تمدن کی،ایک ایسی بنا ڈالو
باغِ ہستی کی ساری بہاریں اور تمام چیزیں اسکی خدمت کے لئے پیدا کی گئیں ہیں یہ اسکا کھلا ثبوت ہے کہ انسان کل مخلوقات میں ممتاز و اشرف ہے۔ اسلئے اکہ انسان میں خیر و شر کا شعور ہے،نیکی وبدی کی تمیز ہے حق و باطل میں فرق کی صلاحیت ہے اور علم و حکمت کے کمالات ہیں۔ ان سب میں اہم اس کے پاس ایک دل ہے جس میں کائنات کا فکر و غم ہے۔محبت الٰہی کا سر چشمہ ہے جس سے دوسری مخلوقات محروم ہیں
اگر انسان ان قیمتی اوصاف سے محروم ہو جائے، انسانیت کی تمیز کھو بیٹھے تو وہ آدمی نما حیوان ہو جاتا ہے جن سے عام طور پر شیطانی حرکات ظاہر ہونے لگتی ہیں، کبھی کبھیتو اسکے اثرات سے آتش فشاں پھوٹ پڑتے ہیں،بستیوں کی بستیاں اجڑ جاتی ہیں،ہزاروں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ آسمان انگارے اگل رہا ہو، زمین شعلوں کی زبان بن گئی ہو،فضا ء میں نفرت او رحقارت کا زہر پھیل جاتا ہے۔ درندگی اوربربریت کی اس انتہا پر حضرت انسان شیطان سے بدتر ہو جاتا ہے انسان کی گراوٹ پر اسلام انجم سہارنپوری نے یوں ماتم کیا ہے۔
ایک بوجھ ہے دھرتی کا،بہتر ہے کہ مر جائے
اس زمیں پر سرحدیں،ہی سرحدیں رہ جائیں گی
سب سے پہلے مہا تما بدھ:کی تعلیمات پر نظر ڈالئے! اس میں جانوروں پر رحم کرنا،ہنسا نہ کرنا،سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا،ذات پات کا فرق مٹانا، کسی کی بے عزتی نہ کرنا،بغض و کینہ نہ کرنا،ہمیشہ سچ بولنا،شراب نہ پینا جیسے اہم مارگ پر لوگوں کو چلنے کی ہدایت ملتی ہے۔
جین مذہب: کی تعلیمات دیکھئے! مہاویر جی نے غصہ، حسد، لالچ، نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی تعلیم دی۔اہنسا کو تو اتنی اہمیت دی کہ انسان تو انسان کیڑے مکوڑے تک مارنا مہا پاپ قرار دیا۔
ھندو مذہب:میں جگہ جگہ ہدایت کی گئی ہے کہ سچ بولنا،چغلی نہ کرنا، دوسروں کو معاف کرنا، لالچ نہ کرنا،نفرت نہ کرنا، ہنسا نہ کرنا انسان کے لئے کامیابی کا ذریعہ ہے۔
کبیر داس نے کہا ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ پریم اور انس کا برتاؤ کرنا ہی سچا دھرم ہے، سب دھرموں کا پرماتما ایک ہے اور ہم سب اسکی اولاد ہیں سب ہمارے بھائی ہیں۔
چانکیہ نیتی: میں ہے کہ یہ میرا ہے یہ میرا پرایا ہے اس طرح کے بھید بھاؤ تنگ دل والے کرتے ہیں جو مہان ہردے ا ور وسیع القلب ہیں ان کے لئے ساری دھرتی ہی ان کا پریوار ہے۔
بھاگوت گیتا اور رامائن، مذہب اور علاقائی قید سے آزاد ہو کر کچھ بہت اُونچا سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
سکھ مذہب:تو ظلم، لالچ، بغض و حسد سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے خالصہ کی حقیقت یہی ہے کہ آدمی نفرت، کینہ اور حرص سے دل پاک کر کے پرماتما کی محبت اور سچائی کے جزبہ سے سر شار ہو جائے گرو گرنتھ صاحب کے صفحہ۔۵۴۳۱۔ ۰۵ پر ہے۔
ایک ور سے سب جگہ او بچیا،کو بھلے کو م دے
آپس کے یہ کینے جھگڑے،دھندھے پاگل پن کے ہیں
مذہبِ اسلام: اپنے پرستاروں کو اس طور پر پابند کیا قرآن شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا زمین پر فساد پھیلا نے والوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے مخلوق میں زیادہ پسندیدہ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اس کے بندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!رحم کرنے والون پر خدا رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
رسول خدا کی پوری زندگی اس بات کی شہادت ہے کہ آپﷺ نے کسی کا دل نہیں دکھایا،کسی کی بے عزتی و بے حرمتی نہیں کی،گالیاں دینے والو ں کو ہدایت فرمائی،بد دعاء کرنے والوں کو دعاء خیر دی اور زیادتی کرنے والوں کو سینے سے لگایا۔
فرمانِ رسول ہے جو آدمی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہیے کہ وہ اسکو معاف کردے، جس نے اس پر ظلم کیا ہو، اس کے ساتھ رشتہ جوڑے، جس نے اس سے رشتہ توڑا ہو۔
آپ نے تعلیم دی،وہ لوگ اللہ کی رحمتِ خاص سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں،دوسرے کے لئے رحم نہیں جو دوسروں پر رحم نہیں کھاتے۔
در اصل مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو ایذا ء نہ پہنچے، جس سے لوگ اپنی جان و مال عزت و آبرو محفوظ سمجھیں۔
دلنوازی دوستی، ہر دھرم کا پیغام ہے
پیرو پیغمبر کا،اوتاروں کا کہنا ہے یہی
نام پر مذہب کے لڑنا، بزدلوں کا کام ہے
در اصل ہم مذہب کی آڑ میں جس شرمناک طریقہ سے مذہب کو بدنام کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انسان کے اندر دردمندی نہ رہی جو انسانیت کے لئے تڑپ سکے،پہلو میں وہ دل نہیں رہا جو کبھی کسی کے درد میں تڑپ سکے، وہ آنکھ نہ رہی جو غم میں چند قطرے ٹپکا سکے، انسان کا ہاتھ نہیں بھیڑیے کا پنچہ ہے، جو لوگوں کی گردنوں میں پڑتا ہے، آج کا انسان درندوں سے اتنا خا ئف نہیں جتنا وہ انسان سے ڈرتا ہے۔
اسلئے ضرورت ہے کہانسان اپنے مذہبی اصولوں کو سمجھے اور اس پر عمل پیرا ہو کیوں کہ جو شخص اپنے مذ ہب کے اوصاف کو سمجھے گا وہ ملک کا وفادار ہوگا،وہ ایک مکمل انسان اور بہترین شہری بھی ہوگا۔
اگر ہم نے انسانیت کو اپنا کر وقت کے تباہ کن دھارے کو موڑنے کی کوشش نہیں کی، ایک دوسرے کو الفت، پیار اور محبت کا سبق نہیں دیا،تعصب اور ظلم اور فساد کا طریقہ اپنائے رکھا، انسانیت اسی طرح کچلی جاتی رہی بن کھلے پھولوں کو اسی طرح مسلا جاتا رہا،تو وہ دن دور نہیں، جب ہمارا انجام انتہائی دہشت ناک ہوگا اورہمارا کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا ۔
آج تک انسانیت کا‘کیوں لہو پیتے رہے
کاش جی سکتے کبھی،انسان بنکر دہر میں
تم فقط ہندو مسلماں، بن کے ہی جیتے رہے
احساسِ مروّت کے، پھولوں سے سجا ڈالو!
انساں کی محبت کے، خودنقش ابھر آئیں
تہذیب و تمدن کی،ایک ایسی بنا ڈالو