ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۳
اداریہ: مہمانان رسول قوم کی امانت،سزا دینا ظلم
مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری، جنرل سکریٹری:ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ و مدیر مسئول:ماہنامہ الفاران
بلاشبہ مدارس دینیہ ملت اسلامیہ کا وہ دھڑکتا دل ہے کہ دھڑکتا رہے توزندگی کی علامت، خاموش ہو جائے تو موت کا نقارہ۔انسان کے جسم میں اللہ سبحانہ و تعالی نے ”دل“کو دیگر اعضاء کی بنسبت ایک خاص قوت دی ہے کہ وہ تمام جسم میں خون پہونچاتا، اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے۔دینی مدارس بھی امت مسلمہ کے لئے ”دل“ ہی کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خادم دین،مفسر،مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان سے امت مسلمہ کا وجود متحرک اور فعال رہتا ہے۔تمام تر دینی جماعتوں،تحریکوں اور تنظیموں کو انہیں مدارس اسلامیہ کی بدولت دینی و اسلامی قوت و طاقت،رسد و کمک پہونچتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو انکی فعالیت،حرکت و حرارت میں کمی آجائے گی اور نتیجہ یہ مرتب ہوگا کہ تمام سرگرمیاں ایک طرح سے بے جان اور بے حس ہو کر رہ جائیں گی۔
مفتی ہو یا قاضی،داعی ہویا مبلغ،خطیب ہو یا واعظ،دین کا ترجمان ہو یا امام،مصنف ہو یا مرتب، صحافی ہو یامحرر، استاد ہو یا مربی یا دینی اعتبار سے کوئی بھی خدمت انجام دے رہا ہو سب اسی کے خوشہ چیں، اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہواکرتے ہیں۔مدارس اسلامیہ فروغ دین،اشاعت اسلام اور حفاظت دین کا ذریعہ ہیں۔ہندوستان بلکہ بر صغیر میں مدارس اسلامیہ کی جو خدمات اور کردار ہے وہ کسی سے بھی مخفی نہیں، موجودہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے جو بھی جلوے اور فیوض ہمیں نظر آتے ہیں وہ انہیں مدارس کی دَین ہیں،انہیں مدارس نے اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایسے افراد تیار کئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ کے چیلینجوں کا ڈٹ کر، آنکھ سے آنکھ ملا کر اور سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور ہر طرح کی قربانی دے کر امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کی ہے۔
ماضی قریب کی تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیجئے معلوم ہوگا کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئی آندھی اٹھی تو انہیں دینی جامعات اور مدارس کے فارغین و فضلاء نے امت محمدیہ کو حق کی راہنمائی کے ساتھ اس باد سموم کا مقابلہ کیا ہے۔کمال تو یہ رہا کہ مدارس اسلامیہ کے بانیوں نے نہایت ہی سادگی، سادہ اور معمولی عمارت، محدود تنخواہیں، حالت درویشی، مستقل مالی وسائل سے محروم، عام مسلمانوں سے دودو چار روپئے کی مدد ،تصنع اور ظاہری رکھ رکھاؤ سے ورے ہو کر حکومتی امداد و مداخلت کے بغیر دینی تعلیم کا ایسا نظام دریافت کیا جس کی بدولت غریب و مفلس، نادار، بے یارو مددگار مسلمانوں کے گھروں میں علم کی شمعیں جلا دیں۔اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
مدارس اسلامیہ:
مدارس اسلامیہ نبی اکرم ﷺ کے زمان مبارک کے اس چبوترے کی یادگار ہے جہاں حضورﷺ کے صحابہ نے بیٹھ کر علم حاصل کیاتھا۔ حضورﷺکے صحابہ کی نسبت پر اس چبوترہ پر بیٹھ کر پڑھنے والوں کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے، یہ وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے علم کے پڑھنے پڑھانے،سیکھنے سکھانے کا آغاز کیا تھا،رب ذوالجلال کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے اور تشنگانِ علوم دینیہ ان مدارس اسلامیہ سے دین شریعت کا علم حاصل کر کے دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًبرصغیر میں اگر کوئی شخص اسلامی شناخت کے ساتھ رہ رہا ہے وہ دراصل مدارس اسلامیہ ہی کی دَین ہے، برصغیر خصوصاً ہندوستان میں اگر اسلامی شعائر باقی ہیں تو اسکا سہرامدارس دینیہ ہی کے سر بندھتا ہے۔بلاشبہ مدارس اسلامیہ وہ مقدس اور پاکیزہ جگہیں ہیں جہاں آکر انسان کوایسا قلبی سکون اور روحانی تازگی میسرہوتی ہے کہ الحمد للہ وہ مدارس اسلامیہ کو اپنی آن بان اور شان سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کا اندرونی نظام:
مدارس اسلامیہ کے اندرونی نظام کے متعلق بات کریں تو مدارس کے مکمل نظام اور شعبہ ئ جات میں نا چیز کی بے تکی نظر کے مطابق ایک ہی شعبہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ ہے شعبہ تعلیم!، اور تعلیم کے نفاذ کی پہلی شرط طالب علم کا ہونا ہے، گویا طلبہ مدارس کی روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر مدارس میں طلبہ نہ ہو، پھر چاہے جتنی بھی عالی شان عمارت ہو یا مختلف شعبہ جات میں سینکڑوں ملازمین روز مرہ کے معمولات کو بحسن وخوبی انجام دینے والے ہوں وہ سب ایک عمارت یا محل تو کہلا سکتے ہیں مگر مدرسہ نہیں، مدرسہ کا اطلاق اسی جگہ پر ہوتا ہے جہاں طلباء کرام بیٹھ کر '' قال اللہ، قال الرسول'' کی تعلیمات کو حاصل کرتے ہیں،پھر وہ جگہ پھونس یا بوسیدہ عمارت کی ہو یا صحرا و بیابان ہو! مدرسہ کہلائے گی۔
معلم (استاد)معمارقوم: استاد کسی بھی ملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ اور معمار ہوتا ہے،کسی انسان کے ساتھ لفظ ”استاذ“جڑ جائے تواس کا مقام و مرتبہ معاشرے میں الگ ہی ہوتا ہے اور اس کی قدر و منزلت ہر شخص کے دل میں پیوست ہوجاتی ہے اور کیوں نہ ہو تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔آج دنیا کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ استاد کو عزت، حقوق، جائز اختیارات کے استعمال اور مراعات میں اولین ترجیح دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور ﷺ کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمؐ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے“ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا“۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ”جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں اب اس کی مرضی مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے“۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کہتے ہیں کہ ”استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا،قوم و ملت اور ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔
طلبہ کے ساتھ شفقت اور خیر خواہی:
استاد کو چاہئے کہ ہمیشہ طلبہ کے ساتھ شفقت و نرمی، خیر خواہی اور صلہ رحمی کا معاملہ کرے،ضروریات اور مصالح کی طرف بایں طور توجہ دے جیسے اپنی اولاد کی ضروریات اور مصالح کی جانب توجہ دیتے ہیں، کبھی اس سے بے ادبی یا گستاخی ہو جائے تو اسے معذور سمجھتے ہوئے شفقت میں طلبہ کو اپنی اولاد کے قائم مقام سمجھے اور درگزر کرے، (”غصہ کو دبانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کردینا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ اعلی صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اگر سیرت پاک کا مطالعہ غور سے کیا جائے تواس کی مثالیں قدم قدم پر ملیں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کرکے (اونٹ پر سوار ہوکر)مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہورہی تھیں، تو راستہ میں ہبار بن اسود نامی ایک شخص نے انہیں اتنی تیزی سی نیزہ مارا کہ وہ اونٹ سے گرپڑیں، حمل ساقط ہوگیا،اس صدمہ سے تاب نہ لاسکیں اور اللہ کو پیاری ہوگئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپ بہت غضب ناک ہوئے اور آپ کو اس بات سے بہت صدمہ ہوا، جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوجاتی تو آب دیدہ ہوجاتے لیکن جب ہبار بن اسود اسلام لے آئے اور معافی کی درخواست کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا“۔)اسلئے کہ انسان نقائص میں مبتلا رہتا ہے خاص طور پر جب کہ وہ کم عمر اورکم سن ہو۔ طالب علم کے لئے وہی خوبیاں اور بھلائیاں پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتے ہوں،ان عیوب و نقائص کو برا سمجھے جنہیں اپنے لئے برا سمجھتے ہوں،اسلئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد کہ”لَا یُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ“(ترجمہ:تم میں سے کوئی آدمی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جس کو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔)استاد کو چاہئے کہ طالب علم کوعلم کی فضیلت کی یا دہانی کراتا رہے تاکہ فضائل کا استحضار اس کے لئے نشاط اور حصول علم کے شوق و جذبہ کا سبب بنے، ساتھ ہی تعلیم کے سلسلہ میں کشادہ دل،اس کے ساتھ مہربانی کرنے والا ہو، اسی طرح استاد کو چاہئے کہ طالب علم کوقرآن پاک کی مشغولی اور دینی علوم حاصل کرنے کی فضیلت بتائے اور دنیا سے بے رغبتی کی تلقین کرتا رہے تاکہ وہ دنیا کی طرف مائل اور اس سے دھوکہ کھانے سے بچ سکے کہ یہ اللہ کے نیک بندوں کا راستہ ہے اور انبیاء علیہم السلام کا شیوہ بھی۔
تلخ حقیقت اور استاد کی عزت و عظمت:
اس سے قبل کہ اساتذہ کی عظمت و مرتبت پر تحریر کروں ایک نظر دور حاضر میں اساتذہ اور طلباء کے مابین محبت و شفقت کے تئیں تلخ حقیقت پر ڈالتے ہیں،جس طرح اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا، اس کے ماسوا دونوں کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔جس طرح طلباء پر لازم ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی تعظیم، اکرام، خدمت اور ان کے حکم کی تعمیل کریں، اسی طرح استاذ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام نے جس طرح ان کو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی،محترم ومعظم شخصیت اور مشفق و مربی کی حیثیت عطا کی ہے، کم از کم اس کا کچھ خیال رکھا جائے۔بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا '' مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ''(ابن ماجہ۔229)۔معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے،اور آدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31)۔انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا'' رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی''۔(الرحمٰن)ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا ''پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا''۔(العلق۔6)۔
آج سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور ویڈیوز جس طرح گردش کر رہی ہے ان کو دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے تو بے ساختہ دل میں یہ خیال آتا ہے کہ آخر دینی مدارس کے اساتذہ ان معصوم بچوں سے کونسی دشمنی کا بدلہ لے رہے ہیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وصیت کی ہے جیسا کہ حضرت ابو سعیدد خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے، لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق انہیں ”مرحباً“ (خوش آمدید) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ۔(سنن ابن ماجۃ 247 وحسنہ الألبانی)۔
آخر کیوں ان نونہالوں کو جانوروں جیسے پیٹا جاتا ہے جب کہ اللہ نے ابھی تک ان معصوموں میں بعض پر شرعی احکام بھی نافذ نہیں کئے اگر اس عمر میں وہ انتقال کر جائیں تو ان کا کوئی حساب و کتاب بھی نہیں ہوتا تو پھر دنیا میں کوئی یہ جرأت کیسے کرسکتا ہے کہ ان پر ان کی بساط سے زائد ذمہ داریاں عائد کریں اور جب وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوں تو ان پر ایسی سختی کہ جس کو سختی کہنا بھی غلط ہوگا بلکہ ظلم و بربریت بھی اگر کہیں تو شاید یہ لفظ بھی ہلکا پڑجائے۔ آخر طلبہ مدارس ہی کیوں اس ظلم و تشدد کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ اسکول کالجوں میں بھی طلبہ اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں، اور ہر سال بڑی تعداد میں فارغین دنیا کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں،اور وہاں تو اس قسم کی کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر بڑے بڑے اہل علم و دانشور کیسے تیار ہوتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور اساتذہ کے نرم رویہ سے بھی ذی استعداد اور قابل علماء، حفاظ اور دانشور افراد تیار ہوسکتے ہیں۔ بس ضرورت ہے اپنے رویے کو صفت عیسوی بنانے کی، ورنہ ہم اور آپ اس کا اندازہ لگاہی رہے ہیں کہ آئے دن مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد گھٹتی جارہی ہے، مدارس میں طلبہ پر ہونے والے ناقابل برداشت مظالم کو دیکھنے کے بعد والدین مدارس کی مالی امداد تو کردیتے ہیں مگر چاہ کر بھی اپنے بچوں کو اہل مدارس کے حوالے کرنا پسند نہیں کرتے، جیسا کہ گزشتہ دنوں حیدرآباد کے ایک مدرسے میں ایک ظالم اور جابر استاذ نے چودہ سالہ طالب علم کو سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں پیٹ پیٹ کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ در اصل واقعہ یہ تھا کہ ایک استاذ جوکہ غالباً ارریہ ضلع کا رہنے والا تھا اور حیدرآباد کے ایک مدرسہ میں درس کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ وہیں ایک چودہ سالہ طالب علم جو ضلع پورنیہ کا رہنے والا تھا، زیور تعلیم سے آراستہ ہورہا تھا، ایک دن سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں مرغا بنا کر لوہے اور لکڑی کے ڈنڈے سے اسطرح وار کیا کہ وہ طالب علم وہیں بے ہوش ہو گیا،استاد علاج کے بہانے باہر لے گیا اور جنگل میں لے جاکر پھانسی کے پھندے پراس مقصد کے تحت لٹکا دیا کہ الزام مجھ پر نہ آئے، اور وہ ظالم مدرس وہیں سے فرار ہوگیا،دوسرے طلبہ نے ذمہ داران کو خبر دی جب تک وہ ظالم راہ فراراختیارکر چکا تھا، موقع پر پولس پہونچی انکی اہلیہ کو گرفتار کر لیا، اس کے بعد طالب علم کی لاش کو اس کے گاؤں کسہا ضلع پورنیہ پہونچادیاگیا۔ اسی طرح بیشمار واقعات ہیں جن پر سینکڑوں صفحات کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، آخر کار یہ سب کیوں ہورہاہے؟کیوں نہیں ان مظالم پر قدغن لگنا چاہئے، جس نے استاذ جیسے پاکیزہ اور مقدس نام پر بدنماں داغ لگا دیا ہے۔راقم کے علم میں ایک معیاری ادارے کے ایسے استاد بھی ہیں جن کی طرف ایسے بہت سے واقعات منسوب ہیں، حالانکہ اہل مدرسہ نے بارہا سمجھایااور نگرانی کی کہ طلبہ کی پٹائی کے بجائے پیار و محبت سے پڑھائیں لیکن اس کے باوجود کئی طلبہ کو ایسی ضرب لگائی کہ معلوم ہوتا تھا کسی خونی دشمن کو مارا گیا ہے، ہمارا خیال یہ ہے کہ تعلیم کے لئے بارعب اور باوقار اساتذہ مار سے نہیں بلکہ پیار سے پڑھاتے ہیں،جو اساتذہ مارتے ہیں دراصل وہ استاد کہلانے کے لائق نہیں،انکو استاد بننے کے لئے اصلاح کی ضرورت ہے، تو پھر کیا اصلاح میں اگر انکو مارا جائے تو کیا برداشت کر پائیں گے؟۔ مدارس میں اساتذہ کے ذریعہ طلبہ کوزدوکوب کے نت نئے طریقوں کے ایجاد سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سزا نہیں بلکہ کسی رنجش کی بنیادپر بدلہ لینے کی ایک شکل ہے اور یاد رکھیں یہ سراسر ظلم ہے،اس سے اجتناب ضروری ہے۔
علم دین کا سیکھنا فرض عین ہے:
ہر مسلمان پر علم دین کا حاصل کرنااس قدر ضروری ہے کہ جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور حرام چیزوں سے بچ سکے، اورفرض عین یہ ہے کہ وہ اسلام کی بنیادی ضروری باتیں معلوم کرلے اور باقی علوم کی تفصیلات، قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل، پھر ان سے نکالے ہوئے اَحکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرضِ عین ہے، البتہ پورے عالمِ اسلام کے ذمہ فرضِ کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں؛ تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں۔
علمِ دین میں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی تفصیل:
فرضِ عین: ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائدِ صحیحہ کا علم حاصل کرے اور طہارت، نجاست کے احکام سیکھے، نماز، روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے، جس شخص کے پاس بقدرِ نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکاۃ کے مسائل و احکام معلوم کرے، جن کو حج پر قدرت ہے ان کے لیے فرضِ عین ہے کہ حج کے اَحکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شرا کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرضِ عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے اَحکام و مسائل اور طلاق کے اَحکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کیے ہیں ان کے اَحکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
فرض کفایہ: پورے قرآنِ مجید کے معانی و مسائل کو سمجھنا، تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر معتبر کی پہچان پیدا کرنا، قرآن و سنت سے جو اَحکام و مسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا، اس میں صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال و آثار سے واقف ہونا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر اور سارا وقت اس میں خرچ کرکے بھی پورا حاصل ہونا آسان نہیں، اس لیے شریعت نے اس علم کو فرضِِ کفایہ قرار دیا ہے، کہ بقدرِ ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبک دوش ہوجائیں گے۔ (مستفاد از معارف القرآن سورۃ توبہ، 122) جملہ علوم کا سکھانا مستحب ہے اور بچوں کی پٹائی کرنا گناہ کبیرہ ہے، پھر اگر وہ بچے بالغ ہیں تو وہ آپ کو معاف کر سکتے ہیں،لیکن اگر نابالغ ہیں وہ شریعت میں کسی بھی امر کے مکلف نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: کہ نابالغ کے حق کا حصول قیامت کے روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وکیل بن کر لیں گے،تو جسکا وکیل نبی ہو کیا وہ اپنا مقدمہ ہار سکتا ہے جب کہ وہ تو معاف کرنے کے بھی اہل نہیں، بعض حضرات کہتے ہیں کہ بغیر پٹائی کے پڑھتا نہیں!حافظ بننا امر مستحب ہے اور گناہ سے بچنا فرض عین ہے، تو کیا ایک امر مستحب کے حصول کے لئے کو ئی عقلمند گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو سکتا ہے؟۔ قال الحصکفی:وَاعْلَمْ أَنَّ تَعَلُّمَ الْعِلْمِ یَکُونُ فَرْضَ عَیْنٍ وَہُوَ بِقَدْرِ مَا یَحْتَاجُ لِدِینِہِ. قال ابن عابدین: (قَوْلُہُ: وَاعْلَمْ أَنَّ تَعَلُّمَ الْعِلْمِ إلَخْ) أَیْ الْعِلْمُ الْمُوصِلُ إلَی الآخِرَۃِ أَوْ الأَعَمُّ مِنْہُ. قَالَ الْعَلامِیُّ فِی فُصُولِہِ: مِنْ فَرَاءِضِ الإِسْلامِ تَعَلُّمُہُ مَا یَحْتَاجُ إلَیْہِ الْعَبْدُ فِی إقَامَۃِ دِینِہِ وَإِخْلاصِ عَمَلِہِ لِلَّہِ تَعَالَی وَمُعَاشَرَۃِ عِبَادِہِ. وَفَرْضٌ عَلَی کُلِّ مُکَلَّفٍ وَمُکَلَّفَۃٍ بَعْدَ تَعَلُّمِہِ عِلْمَ الدِّینِ وَالْہِدَایَۃِ تَعَلُّمُ عِلْمِ الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ وَالصَّلاۃِ وَالصَّوْمِ, وَعِلْمِ الزَّکَاۃِ لِمَنْ لَہُ نِصَابٌ, وَالْحَجِّ لِمَنْ وَجَبَ عَلَیْہِ وَالْبُیُوعِ عَلَی التُّجَّارِ لِیَحْتَرِزُوا عَنْ الشُّبُہَاتِ وَالْمَکْرُوہَاتِ فِی سَاءِرِ الْمُعَامَلاتِ. وَکَذَا أَہْلُ الْحِرَفِ, وَکُلُّ مَنْ اشْتَغَلَ بِشَیْءٍ یُفْرَضُ عَلَیْہِ عِلْمُہُ وَحُکْمُہُ لِیَمْتَنِعَ عَنْ الْحَرَامِ فِیہِ ا ہ (رد المحتار علی الدر المختار 1/ 29 وما بعدہا ط إحیاء التراث)قال النووی: بَابُ أَقْسَامِ الْعِلْمِ الشَّرْعِیِّ ہِیَ ثَلاثَۃٌ: الأَوَّلُ: فَرْضُ الْعَیْنِ, وَہُوَ تَعَلُّمُ الْمُکَلَّفِ مَا لا یَتَأَدَّی الْوَاجِبُ الَّذِی تَعَیَّنَ عَلَیْہِ فِعْلُہُ إلا بِہِ, کَکَیْفِیَّۃِ الْوُضُوءِ, وَالصَّلاۃِ, وَنَحْوِہِمَا, وَعَلَیْہِ حَمَلَ جَمَاعَاتٌ الْحَدِیثَ الْمَرْوِیَّ فِی مُسْنَدِ أَبِی یَعْلَی الْمَوْصِلِیِّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم: { طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ }, وَہَذَا الْحَدِیثُ, وَإِنْ لَمْ یَکُنْ ثَابِتًا فَمَعْنَاہُ صَحِیحٌ. وَحَمَلَہُ آخَرُونَ عَلَی فَرْضِ الْکِفَایَۃِ, وَأَمَّا أَصْلُ وَاجِبِ الإِسْلامِ, وَمَا یَتَعَلَّقُ بِالْعَقَاءِدِ فَیَکْفِی فِیہِ التَّصْدِیقُ بِکُلِّ مَا جَاءَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاعْتِقَادُہُ اعْتِقَادًا جَازِمًا سَلِیمًا مِنْ کُلِّ شَکٍّ, وَلا یَتَعَیَّنُ عَلَی مَنْ حَصَلَ لَہُ ہَذَا تَعَلُّمُ أَدِلَّۃِ الْمُتَکَلِّمِینَ. ہَذَا ہُوَ الصَّحِیحُ الَّذِی أَطْبَقَ عَلَیْہِ السَّلَفُ, وَالْفُقَہَاءُ, وَالْمُحَقِّقُونَ مِنْ الْمُتَکَلِّمِینَ مِنْ أَصْحَابِنَا, وَغَیْرِہِمْ فَإِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ یُطَالِبْ أَحَدًا بِشَیْءٍ سِوَی مَا ذَکَرْنَاہُ, وَکَذَلِکَ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ, وَمَنْ سِوَاہُمْ مِنْ الصَّحَابَۃِ, فَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ الصَّدْرِ الأَوَّلِ (المجموع شرح المہذب 1/ 24 ط دار الفکر)
حاصل یہ ہے کہ جس علم کا حاصل کرنا مسلمان پر فرض ہو اس میں سستی یا کوتاہی کی وجہ سے آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی اور جو علم مسلمان پر فرض نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے اس کے حاصل کرنے سے فضائل تو حاصل ہوں گے، البتہ اس کے حاصل نہ کرنے پر آخرت میں پکڑ نہیں ہوگی۔
اولاً یہ سمجھنا چاہیے کہ استاد کی حیثیت مربی کی ہوتی ہے،ثانیاً یہ کہ اس کی نظر میں وزیر اور فقیر نیز اپنا اور غیر کا بچہ برابر ہونا چاہئے،اگر ضرورتاً تادیب ضربی بالکل ناگزیر ہی ہو تو غصہ یا جذبہ اور انتقام کی حالت میں ہرگز نہ سزا دی جائے نیز مدرسہ کے ضابطہ اور عرف کو ملحوظ رکھ کر سزا دیں اور جس طالب کو جو مناسب سزا دی جائے وہ سزا اس کے تحمل سے زیادہ نہ ہو مثلاً کسی کو تھوڑی دیر کے لئے کھڑا کردیں، کسی کو صرف ڈاٹ ڈپٹ دیں، کسی سے اپنی نگرانی میں آٹھ دس نفلیں پڑھوادیں۔ اسی طرح بچوں کے سرپرست اگر نرمی کی درخواست کریں تو بجائے ناراض اور غصہ ہونے کے حکمت و بصیرت نرمی و شفقت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کریں۔ آجکل بچوں کی پٹائی سے بعض مدارس میں بہت مفاسد اور خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اور پٹائی وغیرہ سے بجائے فائدہ کے نقصان پہونچ رہا ہے۔ اس لئے معلمین حضرات سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے مزاج میں نرمی پیدا کیجئے اور طالب علموں سے شفقت سے کام لیجئے یقیناً آپ دونوں کا مقام و مرتبہ بہت افضل و اعلیٰ ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا؛غور سے سنو،دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال،عالم اور طالب علم (یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)۔(ترمذی۔2322)استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل مدارس خصوصاً اساتذہئ کرام کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔یا رب صل و سلم دائماً ابداً علی حبیبک خیر الخلق کلہم۔
مفتی ہو یا قاضی،داعی ہویا مبلغ،خطیب ہو یا واعظ،دین کا ترجمان ہو یا امام،مصنف ہو یا مرتب، صحافی ہو یامحرر، استاد ہو یا مربی یا دینی اعتبار سے کوئی بھی خدمت انجام دے رہا ہو سب اسی کے خوشہ چیں، اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہواکرتے ہیں۔مدارس اسلامیہ فروغ دین،اشاعت اسلام اور حفاظت دین کا ذریعہ ہیں۔ہندوستان بلکہ بر صغیر میں مدارس اسلامیہ کی جو خدمات اور کردار ہے وہ کسی سے بھی مخفی نہیں، موجودہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے جو بھی جلوے اور فیوض ہمیں نظر آتے ہیں وہ انہیں مدارس کی دَین ہیں،انہیں مدارس نے اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایسے افراد تیار کئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ کے چیلینجوں کا ڈٹ کر، آنکھ سے آنکھ ملا کر اور سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور ہر طرح کی قربانی دے کر امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کی ہے۔
ماضی قریب کی تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیجئے معلوم ہوگا کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئی آندھی اٹھی تو انہیں دینی جامعات اور مدارس کے فارغین و فضلاء نے امت محمدیہ کو حق کی راہنمائی کے ساتھ اس باد سموم کا مقابلہ کیا ہے۔کمال تو یہ رہا کہ مدارس اسلامیہ کے بانیوں نے نہایت ہی سادگی، سادہ اور معمولی عمارت، محدود تنخواہیں، حالت درویشی، مستقل مالی وسائل سے محروم، عام مسلمانوں سے دودو چار روپئے کی مدد ،تصنع اور ظاہری رکھ رکھاؤ سے ورے ہو کر حکومتی امداد و مداخلت کے بغیر دینی تعلیم کا ایسا نظام دریافت کیا جس کی بدولت غریب و مفلس، نادار، بے یارو مددگار مسلمانوں کے گھروں میں علم کی شمعیں جلا دیں۔
نہگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
مدارس اسلامیہ نبی اکرم ﷺ کے زمان مبارک کے اس چبوترے کی یادگار ہے جہاں حضورﷺ کے صحابہ نے بیٹھ کر علم حاصل کیاتھا۔ حضورﷺکے صحابہ کی نسبت پر اس چبوترہ پر بیٹھ کر پڑھنے والوں کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے، یہ وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے علم کے پڑھنے پڑھانے،سیکھنے سکھانے کا آغاز کیا تھا،رب ذوالجلال کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے اور تشنگانِ علوم دینیہ ان مدارس اسلامیہ سے دین شریعت کا علم حاصل کر کے دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًبرصغیر میں اگر کوئی شخص اسلامی شناخت کے ساتھ رہ رہا ہے وہ دراصل مدارس اسلامیہ ہی کی دَین ہے، برصغیر خصوصاً ہندوستان میں اگر اسلامی شعائر باقی ہیں تو اسکا سہرامدارس دینیہ ہی کے سر بندھتا ہے۔بلاشبہ مدارس اسلامیہ وہ مقدس اور پاکیزہ جگہیں ہیں جہاں آکر انسان کوایسا قلبی سکون اور روحانی تازگی میسرہوتی ہے کہ الحمد للہ وہ مدارس اسلامیہ کو اپنی آن بان اور شان سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کا اندرونی نظام:
مدارس اسلامیہ کے اندرونی نظام کے متعلق بات کریں تو مدارس کے مکمل نظام اور شعبہ ئ جات میں نا چیز کی بے تکی نظر کے مطابق ایک ہی شعبہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ ہے شعبہ تعلیم!، اور تعلیم کے نفاذ کی پہلی شرط طالب علم کا ہونا ہے، گویا طلبہ مدارس کی روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر مدارس میں طلبہ نہ ہو، پھر چاہے جتنی بھی عالی شان عمارت ہو یا مختلف شعبہ جات میں سینکڑوں ملازمین روز مرہ کے معمولات کو بحسن وخوبی انجام دینے والے ہوں وہ سب ایک عمارت یا محل تو کہلا سکتے ہیں مگر مدرسہ نہیں، مدرسہ کا اطلاق اسی جگہ پر ہوتا ہے جہاں طلباء کرام بیٹھ کر '' قال اللہ، قال الرسول'' کی تعلیمات کو حاصل کرتے ہیں،پھر وہ جگہ پھونس یا بوسیدہ عمارت کی ہو یا صحرا و بیابان ہو! مدرسہ کہلائے گی۔
معلم (استاد)معمارقوم: استاد کسی بھی ملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ اور معمار ہوتا ہے،کسی انسان کے ساتھ لفظ ”استاذ“جڑ جائے تواس کا مقام و مرتبہ معاشرے میں الگ ہی ہوتا ہے اور اس کی قدر و منزلت ہر شخص کے دل میں پیوست ہوجاتی ہے اور کیوں نہ ہو تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔آج دنیا کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ استاد کو عزت، حقوق، جائز اختیارات کے استعمال اور مراعات میں اولین ترجیح دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور ﷺ کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمؐ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے“ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا“۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ”جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں اب اس کی مرضی مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے“۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کہتے ہیں کہ ”استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا،قوم و ملت اور ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔
طلبہ کے ساتھ شفقت اور خیر خواہی:
استاد کو چاہئے کہ ہمیشہ طلبہ کے ساتھ شفقت و نرمی، خیر خواہی اور صلہ رحمی کا معاملہ کرے،ضروریات اور مصالح کی طرف بایں طور توجہ دے جیسے اپنی اولاد کی ضروریات اور مصالح کی جانب توجہ دیتے ہیں، کبھی اس سے بے ادبی یا گستاخی ہو جائے تو اسے معذور سمجھتے ہوئے شفقت میں طلبہ کو اپنی اولاد کے قائم مقام سمجھے اور درگزر کرے، (”غصہ کو دبانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کردینا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ اعلی صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اگر سیرت پاک کا مطالعہ غور سے کیا جائے تواس کی مثالیں قدم قدم پر ملیں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کرکے (اونٹ پر سوار ہوکر)مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہورہی تھیں، تو راستہ میں ہبار بن اسود نامی ایک شخص نے انہیں اتنی تیزی سی نیزہ مارا کہ وہ اونٹ سے گرپڑیں، حمل ساقط ہوگیا،اس صدمہ سے تاب نہ لاسکیں اور اللہ کو پیاری ہوگئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپ بہت غضب ناک ہوئے اور آپ کو اس بات سے بہت صدمہ ہوا، جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوجاتی تو آب دیدہ ہوجاتے لیکن جب ہبار بن اسود اسلام لے آئے اور معافی کی درخواست کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا“۔)اسلئے کہ انسان نقائص میں مبتلا رہتا ہے خاص طور پر جب کہ وہ کم عمر اورکم سن ہو۔ طالب علم کے لئے وہی خوبیاں اور بھلائیاں پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتے ہوں،ان عیوب و نقائص کو برا سمجھے جنہیں اپنے لئے برا سمجھتے ہوں،اسلئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد کہ”لَا یُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ“(ترجمہ:تم میں سے کوئی آدمی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جس کو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔)استاد کو چاہئے کہ طالب علم کوعلم کی فضیلت کی یا دہانی کراتا رہے تاکہ فضائل کا استحضار اس کے لئے نشاط اور حصول علم کے شوق و جذبہ کا سبب بنے، ساتھ ہی تعلیم کے سلسلہ میں کشادہ دل،اس کے ساتھ مہربانی کرنے والا ہو، اسی طرح استاد کو چاہئے کہ طالب علم کوقرآن پاک کی مشغولی اور دینی علوم حاصل کرنے کی فضیلت بتائے اور دنیا سے بے رغبتی کی تلقین کرتا رہے تاکہ وہ دنیا کی طرف مائل اور اس سے دھوکہ کھانے سے بچ سکے کہ یہ اللہ کے نیک بندوں کا راستہ ہے اور انبیاء علیہم السلام کا شیوہ بھی۔
تلخ حقیقت اور استاد کی عزت و عظمت:
اس سے قبل کہ اساتذہ کی عظمت و مرتبت پر تحریر کروں ایک نظر دور حاضر میں اساتذہ اور طلباء کے مابین محبت و شفقت کے تئیں تلخ حقیقت پر ڈالتے ہیں،جس طرح اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا، اس کے ماسوا دونوں کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔جس طرح طلباء پر لازم ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی تعظیم، اکرام، خدمت اور ان کے حکم کی تعمیل کریں، اسی طرح استاذ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام نے جس طرح ان کو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی،محترم ومعظم شخصیت اور مشفق و مربی کی حیثیت عطا کی ہے، کم از کم اس کا کچھ خیال رکھا جائے۔بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا '' مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ''(ابن ماجہ۔229)۔معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے،اور آدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31)۔انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا'' رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی''۔(الرحمٰن)ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا ''پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا''۔(العلق۔6)۔
آج سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور ویڈیوز جس طرح گردش کر رہی ہے ان کو دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے تو بے ساختہ دل میں یہ خیال آتا ہے کہ آخر دینی مدارس کے اساتذہ ان معصوم بچوں سے کونسی دشمنی کا بدلہ لے رہے ہیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وصیت کی ہے جیسا کہ حضرت ابو سعیدد خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے، لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق انہیں ”مرحباً“ (خوش آمدید) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ۔(سنن ابن ماجۃ 247 وحسنہ الألبانی)۔
آخر کیوں ان نونہالوں کو جانوروں جیسے پیٹا جاتا ہے جب کہ اللہ نے ابھی تک ان معصوموں میں بعض پر شرعی احکام بھی نافذ نہیں کئے اگر اس عمر میں وہ انتقال کر جائیں تو ان کا کوئی حساب و کتاب بھی نہیں ہوتا تو پھر دنیا میں کوئی یہ جرأت کیسے کرسکتا ہے کہ ان پر ان کی بساط سے زائد ذمہ داریاں عائد کریں اور جب وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوں تو ان پر ایسی سختی کہ جس کو سختی کہنا بھی غلط ہوگا بلکہ ظلم و بربریت بھی اگر کہیں تو شاید یہ لفظ بھی ہلکا پڑجائے۔ آخر طلبہ مدارس ہی کیوں اس ظلم و تشدد کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ اسکول کالجوں میں بھی طلبہ اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں، اور ہر سال بڑی تعداد میں فارغین دنیا کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں،اور وہاں تو اس قسم کی کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر بڑے بڑے اہل علم و دانشور کیسے تیار ہوتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور اساتذہ کے نرم رویہ سے بھی ذی استعداد اور قابل علماء، حفاظ اور دانشور افراد تیار ہوسکتے ہیں۔ بس ضرورت ہے اپنے رویے کو صفت عیسوی بنانے کی، ورنہ ہم اور آپ اس کا اندازہ لگاہی رہے ہیں کہ آئے دن مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد گھٹتی جارہی ہے، مدارس میں طلبہ پر ہونے والے ناقابل برداشت مظالم کو دیکھنے کے بعد والدین مدارس کی مالی امداد تو کردیتے ہیں مگر چاہ کر بھی اپنے بچوں کو اہل مدارس کے حوالے کرنا پسند نہیں کرتے، جیسا کہ گزشتہ دنوں حیدرآباد کے ایک مدرسے میں ایک ظالم اور جابر استاذ نے چودہ سالہ طالب علم کو سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں پیٹ پیٹ کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ در اصل واقعہ یہ تھا کہ ایک استاذ جوکہ غالباً ارریہ ضلع کا رہنے والا تھا اور حیدرآباد کے ایک مدرسہ میں درس کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ وہیں ایک چودہ سالہ طالب علم جو ضلع پورنیہ کا رہنے والا تھا، زیور تعلیم سے آراستہ ہورہا تھا، ایک دن سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں مرغا بنا کر لوہے اور لکڑی کے ڈنڈے سے اسطرح وار کیا کہ وہ طالب علم وہیں بے ہوش ہو گیا،استاد علاج کے بہانے باہر لے گیا اور جنگل میں لے جاکر پھانسی کے پھندے پراس مقصد کے تحت لٹکا دیا کہ الزام مجھ پر نہ آئے، اور وہ ظالم مدرس وہیں سے فرار ہوگیا،دوسرے طلبہ نے ذمہ داران کو خبر دی جب تک وہ ظالم راہ فراراختیارکر چکا تھا، موقع پر پولس پہونچی انکی اہلیہ کو گرفتار کر لیا، اس کے بعد طالب علم کی لاش کو اس کے گاؤں کسہا ضلع پورنیہ پہونچادیاگیا۔ اسی طرح بیشمار واقعات ہیں جن پر سینکڑوں صفحات کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، آخر کار یہ سب کیوں ہورہاہے؟کیوں نہیں ان مظالم پر قدغن لگنا چاہئے، جس نے استاذ جیسے پاکیزہ اور مقدس نام پر بدنماں داغ لگا دیا ہے۔راقم کے علم میں ایک معیاری ادارے کے ایسے استاد بھی ہیں جن کی طرف ایسے بہت سے واقعات منسوب ہیں، حالانکہ اہل مدرسہ نے بارہا سمجھایااور نگرانی کی کہ طلبہ کی پٹائی کے بجائے پیار و محبت سے پڑھائیں لیکن اس کے باوجود کئی طلبہ کو ایسی ضرب لگائی کہ معلوم ہوتا تھا کسی خونی دشمن کو مارا گیا ہے، ہمارا خیال یہ ہے کہ تعلیم کے لئے بارعب اور باوقار اساتذہ مار سے نہیں بلکہ پیار سے پڑھاتے ہیں،جو اساتذہ مارتے ہیں دراصل وہ استاد کہلانے کے لائق نہیں،انکو استاد بننے کے لئے اصلاح کی ضرورت ہے، تو پھر کیا اصلاح میں اگر انکو مارا جائے تو کیا برداشت کر پائیں گے؟۔ مدارس میں اساتذہ کے ذریعہ طلبہ کوزدوکوب کے نت نئے طریقوں کے ایجاد سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سزا نہیں بلکہ کسی رنجش کی بنیادپر بدلہ لینے کی ایک شکل ہے اور یاد رکھیں یہ سراسر ظلم ہے،اس سے اجتناب ضروری ہے۔
علم دین کا سیکھنا فرض عین ہے:
ہر مسلمان پر علم دین کا حاصل کرنااس قدر ضروری ہے کہ جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور حرام چیزوں سے بچ سکے، اورفرض عین یہ ہے کہ وہ اسلام کی بنیادی ضروری باتیں معلوم کرلے اور باقی علوم کی تفصیلات، قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل، پھر ان سے نکالے ہوئے اَحکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرضِ عین ہے، البتہ پورے عالمِ اسلام کے ذمہ فرضِ کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں؛ تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں۔
علمِ دین میں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی تفصیل:
فرضِ عین: ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائدِ صحیحہ کا علم حاصل کرے اور طہارت، نجاست کے احکام سیکھے، نماز، روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے، جس شخص کے پاس بقدرِ نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکاۃ کے مسائل و احکام معلوم کرے، جن کو حج پر قدرت ہے ان کے لیے فرضِ عین ہے کہ حج کے اَحکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شرا کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرضِ عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے اَحکام و مسائل اور طلاق کے اَحکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کیے ہیں ان کے اَحکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
فرض کفایہ: پورے قرآنِ مجید کے معانی و مسائل کو سمجھنا، تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر معتبر کی پہچان پیدا کرنا، قرآن و سنت سے جو اَحکام و مسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا، اس میں صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال و آثار سے واقف ہونا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر اور سارا وقت اس میں خرچ کرکے بھی پورا حاصل ہونا آسان نہیں، اس لیے شریعت نے اس علم کو فرضِِ کفایہ قرار دیا ہے، کہ بقدرِ ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبک دوش ہوجائیں گے۔ (مستفاد از معارف القرآن سورۃ توبہ، 122) جملہ علوم کا سکھانا مستحب ہے اور بچوں کی پٹائی کرنا گناہ کبیرہ ہے، پھر اگر وہ بچے بالغ ہیں تو وہ آپ کو معاف کر سکتے ہیں،لیکن اگر نابالغ ہیں وہ شریعت میں کسی بھی امر کے مکلف نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: کہ نابالغ کے حق کا حصول قیامت کے روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وکیل بن کر لیں گے،تو جسکا وکیل نبی ہو کیا وہ اپنا مقدمہ ہار سکتا ہے جب کہ وہ تو معاف کرنے کے بھی اہل نہیں، بعض حضرات کہتے ہیں کہ بغیر پٹائی کے پڑھتا نہیں!حافظ بننا امر مستحب ہے اور گناہ سے بچنا فرض عین ہے، تو کیا ایک امر مستحب کے حصول کے لئے کو ئی عقلمند گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو سکتا ہے؟۔ قال الحصکفی:وَاعْلَمْ أَنَّ تَعَلُّمَ الْعِلْمِ یَکُونُ فَرْضَ عَیْنٍ وَہُوَ بِقَدْرِ مَا یَحْتَاجُ لِدِینِہِ. قال ابن عابدین: (قَوْلُہُ: وَاعْلَمْ أَنَّ تَعَلُّمَ الْعِلْمِ إلَخْ) أَیْ الْعِلْمُ الْمُوصِلُ إلَی الآخِرَۃِ أَوْ الأَعَمُّ مِنْہُ. قَالَ الْعَلامِیُّ فِی فُصُولِہِ: مِنْ فَرَاءِضِ الإِسْلامِ تَعَلُّمُہُ مَا یَحْتَاجُ إلَیْہِ الْعَبْدُ فِی إقَامَۃِ دِینِہِ وَإِخْلاصِ عَمَلِہِ لِلَّہِ تَعَالَی وَمُعَاشَرَۃِ عِبَادِہِ. وَفَرْضٌ عَلَی کُلِّ مُکَلَّفٍ وَمُکَلَّفَۃٍ بَعْدَ تَعَلُّمِہِ عِلْمَ الدِّینِ وَالْہِدَایَۃِ تَعَلُّمُ عِلْمِ الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ وَالصَّلاۃِ وَالصَّوْمِ, وَعِلْمِ الزَّکَاۃِ لِمَنْ لَہُ نِصَابٌ, وَالْحَجِّ لِمَنْ وَجَبَ عَلَیْہِ وَالْبُیُوعِ عَلَی التُّجَّارِ لِیَحْتَرِزُوا عَنْ الشُّبُہَاتِ وَالْمَکْرُوہَاتِ فِی سَاءِرِ الْمُعَامَلاتِ. وَکَذَا أَہْلُ الْحِرَفِ, وَکُلُّ مَنْ اشْتَغَلَ بِشَیْءٍ یُفْرَضُ عَلَیْہِ عِلْمُہُ وَحُکْمُہُ لِیَمْتَنِعَ عَنْ الْحَرَامِ فِیہِ ا ہ (رد المحتار علی الدر المختار 1/ 29 وما بعدہا ط إحیاء التراث)قال النووی: بَابُ أَقْسَامِ الْعِلْمِ الشَّرْعِیِّ ہِیَ ثَلاثَۃٌ: الأَوَّلُ: فَرْضُ الْعَیْنِ, وَہُوَ تَعَلُّمُ الْمُکَلَّفِ مَا لا یَتَأَدَّی الْوَاجِبُ الَّذِی تَعَیَّنَ عَلَیْہِ فِعْلُہُ إلا بِہِ, کَکَیْفِیَّۃِ الْوُضُوءِ, وَالصَّلاۃِ, وَنَحْوِہِمَا, وَعَلَیْہِ حَمَلَ جَمَاعَاتٌ الْحَدِیثَ الْمَرْوِیَّ فِی مُسْنَدِ أَبِی یَعْلَی الْمَوْصِلِیِّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم: { طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ }, وَہَذَا الْحَدِیثُ, وَإِنْ لَمْ یَکُنْ ثَابِتًا فَمَعْنَاہُ صَحِیحٌ. وَحَمَلَہُ آخَرُونَ عَلَی فَرْضِ الْکِفَایَۃِ, وَأَمَّا أَصْلُ وَاجِبِ الإِسْلامِ, وَمَا یَتَعَلَّقُ بِالْعَقَاءِدِ فَیَکْفِی فِیہِ التَّصْدِیقُ بِکُلِّ مَا جَاءَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاعْتِقَادُہُ اعْتِقَادًا جَازِمًا سَلِیمًا مِنْ کُلِّ شَکٍّ, وَلا یَتَعَیَّنُ عَلَی مَنْ حَصَلَ لَہُ ہَذَا تَعَلُّمُ أَدِلَّۃِ الْمُتَکَلِّمِینَ. ہَذَا ہُوَ الصَّحِیحُ الَّذِی أَطْبَقَ عَلَیْہِ السَّلَفُ, وَالْفُقَہَاءُ, وَالْمُحَقِّقُونَ مِنْ الْمُتَکَلِّمِینَ مِنْ أَصْحَابِنَا, وَغَیْرِہِمْ فَإِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ یُطَالِبْ أَحَدًا بِشَیْءٍ سِوَی مَا ذَکَرْنَاہُ, وَکَذَلِکَ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ, وَمَنْ سِوَاہُمْ مِنْ الصَّحَابَۃِ, فَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ الصَّدْرِ الأَوَّلِ (المجموع شرح المہذب 1/ 24 ط دار الفکر)
حاصل یہ ہے کہ جس علم کا حاصل کرنا مسلمان پر فرض ہو اس میں سستی یا کوتاہی کی وجہ سے آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی اور جو علم مسلمان پر فرض نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے اس کے حاصل کرنے سے فضائل تو حاصل ہوں گے، البتہ اس کے حاصل نہ کرنے پر آخرت میں پکڑ نہیں ہوگی۔
اولاً یہ سمجھنا چاہیے کہ استاد کی حیثیت مربی کی ہوتی ہے،ثانیاً یہ کہ اس کی نظر میں وزیر اور فقیر نیز اپنا اور غیر کا بچہ برابر ہونا چاہئے،اگر ضرورتاً تادیب ضربی بالکل ناگزیر ہی ہو تو غصہ یا جذبہ اور انتقام کی حالت میں ہرگز نہ سزا دی جائے نیز مدرسہ کے ضابطہ اور عرف کو ملحوظ رکھ کر سزا دیں اور جس طالب کو جو مناسب سزا دی جائے وہ سزا اس کے تحمل سے زیادہ نہ ہو مثلاً کسی کو تھوڑی دیر کے لئے کھڑا کردیں، کسی کو صرف ڈاٹ ڈپٹ دیں، کسی سے اپنی نگرانی میں آٹھ دس نفلیں پڑھوادیں۔ اسی طرح بچوں کے سرپرست اگر نرمی کی درخواست کریں تو بجائے ناراض اور غصہ ہونے کے حکمت و بصیرت نرمی و شفقت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کریں۔ آجکل بچوں کی پٹائی سے بعض مدارس میں بہت مفاسد اور خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اور پٹائی وغیرہ سے بجائے فائدہ کے نقصان پہونچ رہا ہے۔ اس لئے معلمین حضرات سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے مزاج میں نرمی پیدا کیجئے اور طالب علموں سے شفقت سے کام لیجئے یقیناً آپ دونوں کا مقام و مرتبہ بہت افضل و اعلیٰ ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا؛غور سے سنو،دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال،عالم اور طالب علم (یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)۔(ترمذی۔2322)استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل مدارس خصوصاً اساتذہئ کرام کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔یا رب صل و سلم دائماً ابداً علی حبیبک خیر الخلق کلہم۔