ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۳
ماہِ ربیع الاول اور ہم
حضرت مولاناعبداللہ خالد صاحب ، قاسمی ،خیرآبادی، ایڈیٹر:ماہنامہ مظاہر علوم ،سہارنپور
ماہ ربیع الاول ہر سال آتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ اسی ماہ مبارک میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے تاریخ انسانیت کا نیا باب شروع ہوا تھا اور دنیا نے اس امی لقب رسول کی انقلاب آفرینی کا جلوہ دیکھا تھا، ایسا ہمہ گیر انقلاب جس نے قعر ذلت میں پڑے لوگوں کو اتنا اوپر اٹھایا کہ وہ فخر انسانیت اور معیار فضیلت بن گئے ،صحرا نشینوں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ وہ تخت حکومت پر نظر آنے لگے ۔
اس بزم کائنات میں تقریباً ایک ارب ساٹھ کروڑفرزندان توحید کا وجود اور ۵۲ خالص اسلامی مملک کا پایا جانا ،دعوت و تبلیغ کے گردش کرتے ہزاروں کاررواں، قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے عربی مدارس و معابد کا وسیع ترین سلسلہ ،تصنیف و تالیف میں منہمک اسلامی اسکالرس،اصلاح و تربیت میں مشغول علماء و مدرسین،دینی و اصلاحی اور دعوتی مجلات و رسائل کی اشاعت و ترسیل، اسلامی موضوعات پت منعقد ہونے والے جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا تسلسل ،حمد و نعت اور منقبت کی بزم آرائیاں،شعراء اسلام کی نغمہ سنجیاں،علماء کرام اور خطباء اسلام کی سحر آفرینیاں، مؤرخین اسلام کی تاریخ نویسیاں، سیرۃ النبی کی مجلسیں و محفلیںاور سیرت نگاری کی سرگرمیاںیہ سب کس کے صدقے میں ہیں؟ ہر سو کس کے نام کا غلغلہ ہے؟ کس کے ذکر کا ہمہمہ ہے؟ وہ کون سی قدسی صفات ذات ہے ؟ نسلِ انسانی کا وہ کون سا گلِ سرسبداور سلسلۂ رسالت کا عقدِ فرید ہے ؟ جس کے نام کی خوشبو ہمہ وقت فضائے عالم کو معطر و معنبر کئے ہوئے ہے؟تو سنیے وہ امی لقب،اعلی نسب ،رسول کامل،کتاب ہدایت کے حامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبقری ذات ہے اور یہ تمام تر سرگرمیاں ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘کا حصہ ہیں۔
فرزاندان توحید،مسلمانان عالم کو تاریخ انسانیت میں جو بھی عزت و توقیر ملی اسی نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت و تعلق کی بنیاد پر ملی ، مسلمانان عالم تاریخ کے جس دور میں بھی ہونگے ،جس ملک اور جس خطہ میں سکونت پذیر رہیں گے وہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور تحریک اصلاح سے الگ ہوکر اگر زندہ رہنے ، ترقی کرنے ،راحت و سکون پانے اور اپنا وجود تسلیم کرانےکا تصور کریں گے توسوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،اور جب تک نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑے رےیں گے ،اس ماہِ نبوت کی روشنی میں سفرِ حیات طے کرتے رہیں گے ،دنیا کی کوئی طاقت ان کے بڑھتے قدم کو نہیں روک سکتی ،مسلمانان عالم کا سب کچھ پانا یا سب کچھ کھونا ارشادات نبوت کی تعمیل اور عدم تعمیل پر منحصر ہے،اس لئے کہ رب کائنات نے انسانیت کے سب سے بڑے محسن ،دنیا کے سب سے بڑے ہادی و رہبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ذکرِ دوام عطا کیا ہے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کے ذریعہ دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ انسانیت کی نجات ،اولادِ آدم کی عزت و شرافت،اور مسلمانوں کی عظمت و شوکت اسی ذکر کو بلند رکھنے ،اسی رسول کے ماتحت زندہ رہنے اور ہر عمل میں اسی کو اسوہ و نمونہ بنانے میں ہے ،’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ‘‘ کا فرمان، زمان و مکان کی قیود و حدود سے ورے ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ مسلمانوں کی بدحالی، پس ماندگی کا سبب مادیات سے دوری ،عصری تعلیم سے بے توجہی اور دشمنان اسلام کی سازشیں ہیں ،یہ سب مادہ پرست ،ایمان و یقین اور فکر آخرت سے عاری افراد کے چونچلے ہیں ،آج مسلمانوں پر جو بھی آفات ہیں ،جن مسائل و مشکلات سے وہ دوچار ہیں ان کے اسباب پر ایمان و عقیدہ کی روشنی میں غور کریں تو نکبت و پریشانی کا راز منکشف اور واضح ہوکر سامنے آجائے گا ۔
اس ماہ ربیع الاول میں اپنے زوال اور ذلت و رسوائی کے انھیں اسباب کو جاننے اور ان کو دور کرنے کی خاص ضرورت ہے۔
آج مسلمانوں کو ماہ ربیع الاول کے استقبال میں جلسوں ،جلوسوں ،محفلوں اور ظاہری آرائش و زیبائش سے بلند ہوکر اسی انقلاب سے اپنا ربط بحال کرنا ہے ،ورنہ یہ ماہ مبارک تو اپنا پیغام ہر سال کی طرح سنا کر چلا جائے گا مگر ہم جہاں ہیں اس سے بھی دو چار قدم اور پیچھے چلے جائیں گے۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلیٰ المُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْہُمْ (القرآن)
چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں عالم انسانیت کی فضاء روحانی میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوامولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے لکھاکہ’’ آپ کی ولادت با سعادت گویا رحمت الٰہی کی بدلیوں کی ایک عالم گیر نمود تھی، جس کے فیضان عام نے تمام کائنات کو سرسبزی و شادابی کی بشارت سنائی، اور زمین کی خشک سالی کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا، آپ کی ولادت با سعادت ہدایت الٰہی کی تکمیل تھی، شریعت ربانی کے ارتقاء کا آخری مرتبہ تھا یہ سعادت بشری کا آخری پیام تھا، یہ وراثت ارضی کی آخری بخشش تھی ‘‘اس لیے کہ سارے عالم کے لیے رحمت و رافت کا مجسم پیکر بن کر ہادیٔ عالم ، داعیٔ اعظم، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے-
ماہ ربیع الاول میں ولادت نبوی کی تاریخ یقیناً بڑی خوشی اور اانتہائی مسرت کا موقع ہے، لیکن تھوڑی دیر کے لیے اس پر غور کیا جائے کہ عامۃ المسلمین کا اظہار خوشی کا انداز کیا ہوتا ہے ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر مسرت کا طریقہ کیا ہوتا ہے، کیا شرعی حدود و قیود کی پابندی ملحوظ ہوتی ہے؟
ہمارے لیے شریعت اور شرعی حکم وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے برگزیدہ اصحاب اور پھر ان کے حقیقی جانشین تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہو، آج ذکر ولادت نبی اور سیرت نبی کے عنوان سے بڑے بڑے جلسے خاص اندازاور کچھ رسومات کے ساتھ منعقد کئے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، لذیذ اور عمدہ پکوان تیار کئے جاتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ اس تاریخ میں روزہ رکھنا ، مدارس و مکاتب میں چھٹی اور تعطیل کرنا، باہم ایک دوسرے کو اس دن دعوت کرنا، یہ سب بے اصل اور بے بنیاد چیزیں ہیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات سے ان سب کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے، کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب عشق رسول کے تقاضے ہیں اور عشق رسول کا اظہار ہر مسلمان کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ اس کے ایمان کے مکمل ہونے کی دلیل ہے۔
لیکن عشق رسول اور محبت رسول کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ کچھ ایام خاص کر کے کچھ رسومات ادا کرلی جائیں اور لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ہنگامہ سا کردیا جائے بلکہ عشق رسول کا حقیقی تقاضا تو یہ ہے کہ مسلمان کی زندگی سیرت نبی کا عملی نمونہ بن جائے، مسلمانوں کی معاشرت اور طرز زندگی میں اسلامی انداز آجائے، لباس، انداز نشست و برخاست اور معاملات ہر ہر چیز پر اسلام کا رنگ غالب رہے۔ اگر ایسانہیں ہے تو ہم عشق رسول کے دعوی میں جھوٹے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ میلاد و سیرت کے جلسے، بظاہر ہیں بام سعادت کے زینے
یہ سچ ہے کہ نعت محمد کے موتی ،ہے ایماں کی انگشتری کے نگینے
مگر اے قصیدہ گرو یہ تو سوچو! ،کہ بے روح لفظوں کی قیمت ہی کیا ہے
بنے ہیں کہیں نقش آب رواں پر، چلے ہیں کہیں خشکیوں پر سفینے
اس ماہ کی مبارک میں بدعات سے بچنا چاہئے اور یایہا الذین آمنو ا ادخلوا فی السلم کافۃ یعنی اسلامی مزاج و مذاق کی پوری رعایت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہئے اسی وقت عشق رسول کا ہمارا دعویٰ سچا اور مبنی برحقیقت ہوگا ورنہ خشکی پر کشتی چلانے کے مترادف ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عشق رسول کی حقیقی دولت و نعمت سے سرفراز فرمائے آمین
اللہم صل وسلم دائماً ابداً علی حبیبک خیر الخلق کلہم
اس بزم کائنات میں تقریباً ایک ارب ساٹھ کروڑفرزندان توحید کا وجود اور ۵۲ خالص اسلامی مملک کا پایا جانا ،دعوت و تبلیغ کے گردش کرتے ہزاروں کاررواں، قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے عربی مدارس و معابد کا وسیع ترین سلسلہ ،تصنیف و تالیف میں منہمک اسلامی اسکالرس،اصلاح و تربیت میں مشغول علماء و مدرسین،دینی و اصلاحی اور دعوتی مجلات و رسائل کی اشاعت و ترسیل، اسلامی موضوعات پت منعقد ہونے والے جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا تسلسل ،حمد و نعت اور منقبت کی بزم آرائیاں،شعراء اسلام کی نغمہ سنجیاں،علماء کرام اور خطباء اسلام کی سحر آفرینیاں، مؤرخین اسلام کی تاریخ نویسیاں، سیرۃ النبی کی مجلسیں و محفلیںاور سیرت نگاری کی سرگرمیاںیہ سب کس کے صدقے میں ہیں؟ ہر سو کس کے نام کا غلغلہ ہے؟ کس کے ذکر کا ہمہمہ ہے؟ وہ کون سی قدسی صفات ذات ہے ؟ نسلِ انسانی کا وہ کون سا گلِ سرسبداور سلسلۂ رسالت کا عقدِ فرید ہے ؟ جس کے نام کی خوشبو ہمہ وقت فضائے عالم کو معطر و معنبر کئے ہوئے ہے؟تو سنیے وہ امی لقب،اعلی نسب ،رسول کامل،کتاب ہدایت کے حامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبقری ذات ہے اور یہ تمام تر سرگرمیاں ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘کا حصہ ہیں۔
فرزاندان توحید،مسلمانان عالم کو تاریخ انسانیت میں جو بھی عزت و توقیر ملی اسی نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت و تعلق کی بنیاد پر ملی ، مسلمانان عالم تاریخ کے جس دور میں بھی ہونگے ،جس ملک اور جس خطہ میں سکونت پذیر رہیں گے وہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور تحریک اصلاح سے الگ ہوکر اگر زندہ رہنے ، ترقی کرنے ،راحت و سکون پانے اور اپنا وجود تسلیم کرانےکا تصور کریں گے توسوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،اور جب تک نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑے رےیں گے ،اس ماہِ نبوت کی روشنی میں سفرِ حیات طے کرتے رہیں گے ،دنیا کی کوئی طاقت ان کے بڑھتے قدم کو نہیں روک سکتی ،مسلمانان عالم کا سب کچھ پانا یا سب کچھ کھونا ارشادات نبوت کی تعمیل اور عدم تعمیل پر منحصر ہے،اس لئے کہ رب کائنات نے انسانیت کے سب سے بڑے محسن ،دنیا کے سب سے بڑے ہادی و رہبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ذکرِ دوام عطا کیا ہے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کے ذریعہ دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ انسانیت کی نجات ،اولادِ آدم کی عزت و شرافت،اور مسلمانوں کی عظمت و شوکت اسی ذکر کو بلند رکھنے ،اسی رسول کے ماتحت زندہ رہنے اور ہر عمل میں اسی کو اسوہ و نمونہ بنانے میں ہے ،’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ‘‘ کا فرمان، زمان و مکان کی قیود و حدود سے ورے ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ مسلمانوں کی بدحالی، پس ماندگی کا سبب مادیات سے دوری ،عصری تعلیم سے بے توجہی اور دشمنان اسلام کی سازشیں ہیں ،یہ سب مادہ پرست ،ایمان و یقین اور فکر آخرت سے عاری افراد کے چونچلے ہیں ،آج مسلمانوں پر جو بھی آفات ہیں ،جن مسائل و مشکلات سے وہ دوچار ہیں ان کے اسباب پر ایمان و عقیدہ کی روشنی میں غور کریں تو نکبت و پریشانی کا راز منکشف اور واضح ہوکر سامنے آجائے گا ۔
اس ماہ ربیع الاول میں اپنے زوال اور ذلت و رسوائی کے انھیں اسباب کو جاننے اور ان کو دور کرنے کی خاص ضرورت ہے۔
آج مسلمانوں کو ماہ ربیع الاول کے استقبال میں جلسوں ،جلوسوں ،محفلوں اور ظاہری آرائش و زیبائش سے بلند ہوکر اسی انقلاب سے اپنا ربط بحال کرنا ہے ،ورنہ یہ ماہ مبارک تو اپنا پیغام ہر سال کی طرح سنا کر چلا جائے گا مگر ہم جہاں ہیں اس سے بھی دو چار قدم اور پیچھے چلے جائیں گے۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلیٰ المُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْہُمْ (القرآن)
چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں عالم انسانیت کی فضاء روحانی میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوامولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے لکھاکہ’’ آپ کی ولادت با سعادت گویا رحمت الٰہی کی بدلیوں کی ایک عالم گیر نمود تھی، جس کے فیضان عام نے تمام کائنات کو سرسبزی و شادابی کی بشارت سنائی، اور زمین کی خشک سالی کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا، آپ کی ولادت با سعادت ہدایت الٰہی کی تکمیل تھی، شریعت ربانی کے ارتقاء کا آخری مرتبہ تھا یہ سعادت بشری کا آخری پیام تھا، یہ وراثت ارضی کی آخری بخشش تھی ‘‘اس لیے کہ سارے عالم کے لیے رحمت و رافت کا مجسم پیکر بن کر ہادیٔ عالم ، داعیٔ اعظم، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے-
ماہ ربیع الاول میں ولادت نبوی کی تاریخ یقیناً بڑی خوشی اور اانتہائی مسرت کا موقع ہے، لیکن تھوڑی دیر کے لیے اس پر غور کیا جائے کہ عامۃ المسلمین کا اظہار خوشی کا انداز کیا ہوتا ہے ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر مسرت کا طریقہ کیا ہوتا ہے، کیا شرعی حدود و قیود کی پابندی ملحوظ ہوتی ہے؟
ہمارے لیے شریعت اور شرعی حکم وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے برگزیدہ اصحاب اور پھر ان کے حقیقی جانشین تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہو، آج ذکر ولادت نبی اور سیرت نبی کے عنوان سے بڑے بڑے جلسے خاص اندازاور کچھ رسومات کے ساتھ منعقد کئے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، لذیذ اور عمدہ پکوان تیار کئے جاتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ اس تاریخ میں روزہ رکھنا ، مدارس و مکاتب میں چھٹی اور تعطیل کرنا، باہم ایک دوسرے کو اس دن دعوت کرنا، یہ سب بے اصل اور بے بنیاد چیزیں ہیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات سے ان سب کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے، کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب عشق رسول کے تقاضے ہیں اور عشق رسول کا اظہار ہر مسلمان کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ اس کے ایمان کے مکمل ہونے کی دلیل ہے۔
لیکن عشق رسول اور محبت رسول کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ کچھ ایام خاص کر کے کچھ رسومات ادا کرلی جائیں اور لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ہنگامہ سا کردیا جائے بلکہ عشق رسول کا حقیقی تقاضا تو یہ ہے کہ مسلمان کی زندگی سیرت نبی کا عملی نمونہ بن جائے، مسلمانوں کی معاشرت اور طرز زندگی میں اسلامی انداز آجائے، لباس، انداز نشست و برخاست اور معاملات ہر ہر چیز پر اسلام کا رنگ غالب رہے۔ اگر ایسانہیں ہے تو ہم عشق رسول کے دعوی میں جھوٹے ہیں۔
اس ماہ کی مبارک میں بدعات سے بچنا چاہئے اور یایہا الذین آمنو ا ادخلوا فی السلم کافۃ یعنی اسلامی مزاج و مذاق کی پوری رعایت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہئے اسی وقت عشق رسول کا ہمارا دعویٰ سچا اور مبنی برحقیقت ہوگا ورنہ خشکی پر کشتی چلانے کے مترادف ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عشق رسول کی حقیقی دولت و نعمت سے سرفراز فرمائے آمین
اللہم صل وسلم دائماً ابداً علی حبیبک خیر الخلق کلہم