ماہنامہ الفاران

ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۳

جشنِ ولادت :عقیدت یا جہالت؟

حضرت مفتی ظفر امام صاحب ، استاد عربی ادب:دارالعلوم، بہادرگنج ، کشن گنج، بہار

ربیع الاول کا مہینہ ابتدائے اسلام سے ہی مذہبِ اسلام میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتا ہے،دینِ اسلام کے پیروکاروں کے نزدیک یہ مہینہ اپنی امتیازی شان اور ایک خاص وصف کے اعتبار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، مسلمانوں کے یہاں یہ مہینہ بیک وقت خوشی و مسرت اور حزن و ملال کا مظہر ہے، کیونکہ جہاں اس مہینے میں ماہتابِ رسالت ﷺ اپنی تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ صحرائے عرب کے افق پر نمودار ہوا تھا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تُنک تاب کرنیں خطۂ عالم میں بکھر گئی تھیں،تو وہیں اسی مہینے میں اسلام کا وہ جگمگاتا ہوا چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ یثرب کے نخلستانوں کی اوٹ میں جا چھپا تھا اور اس کے تابندہ نقوش صفحۂ گیتی پر سدا کے لئے پیوست ہوگئے تھے۔
صدیوں سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ جب ربیع الاول کا چاند دامنِ مغرب میں تاریکیوں کی تہوں کا سرکاتا ہوا شفق کی اوٹ سے جھانکنے لگتا ہےتو اسے دیکھتے ہی امتِ مسلمہ کا دل جھوم اٹھتا ہے،خوشی کے مارے ان کی بانچھیں کھل اٹھتی ہیں،ان کا وجود سرور و مستی کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے لگتا ہے،اور ذہن یادوں کے اوراق الٹتے الٹتے پندرہ صدیاں پیچھے جا پہونچتا ہے،جہاں اسے مسرت کے ساز بجتے اور خوشی کے نغمے گاتے سنائی دیتے ہیں،اور ہونا بھی چاہیے کہ یہی وہ مہینہ ہے جو اجڑے ہوئے باغِ ہستی پر موسمِ بہار کی نویدلیکر آیا تھا،جو خزاں رسیدہ چمن میں پھولوں کی مہکار اور چڑیوں کی چہکار کے شادیانے بجایا تھا،جو خرمنِ کائنات کے مایوس گوشوں میں امیدوں کے ترانے گا کر سنایا تھا،جوبرسہا برس سے تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کے لئے مینارۂ نور کی آمد کا مژدہ سنایا تھا اور جو ظالموں کے ہاتھ کو ظلم و استبداد سے روکنے اور مظلوموں کے لئے قدرت کی مسیحائی کا پیغام لیکر آیا تھا۔
لیکن! صدیوں سے اس کائناتِ آب و گِل میں کچھ ایسے بھی ناعاقبت اندیش لوگ اور عقیدت مندوں کے بھیس میں گستاخوں کی ایسی ٹولیاں بھی بستی چلی آرہی ہیں،جو حبِ رسولؐ اور عقیدتِ نبیؐ کی آڑ لیکر شریعتِ مطہرہ کی پاکیزہ عمارت پر نقب لگاتی ہیں اور ملتِ بیضاء کی تمام حدبندیاں عبور کرکے اس مہینے میں طوفانِ بدتمیزی کی وہ مثال پیش کرتی ہیں کہ جس کی کراہت و ناپسندیدگی سے ماہتابِ رسالت ﷺ کی روحِ مبارک کو بھی تکلیف پہونچتی ہے۔
تو آئیے جانتے ہیں کہ شریعت اس میلادِ مروجہ کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ اور امت کے سوادِ اعظم کا اس سلسلے میں کیا موقف ہے؟۔
جب ہم ماضی کے دریچے سے قرونِ ثلاثہ پر اپنی نگاہیں دوڑاتے ہیں تو ہمیں ان میں سے کہیں بھی نہ اس میلادِ مروجہ کا نشان ملتا ہے،اور نہ ہی اس باب میں کسی ضعیف اور کمزور روایت کا پتہ چلتا ہے،بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جس کا رواج قرونِ ثلاثہ کے بہت بعد امتِ مسلمہ میں در آیا ہے،اس بدعتِ قبیحہ کا بانی ملک مظفر الدین شاہ ہے،جو موصل کے علاقے اربل کا بادشاہِ وقت تھا، جس نے ۶۴۰ھ میں سب سے پہلے جشنِ میلاد النبی مناکر اس بدعت کی بنیاد رکھی۔
ملک مظفر الدین شاہ اپنے زمانے کا نہایت خود سر،حریص،عیش پرست، فاسق،واضعِ حدیث اور مسرف قسم کا بادشاہ تھا،چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری اور حافظ ذہبی رحمہما اللہ وغیرہ۔جشنِ میلاد پر ان کی فضول خرچیوں کی تفصیل کے بارے میں رقم طراز ہیں،”یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا تھا اس طرح اس نے رعایا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اور اس کے لیے ملک و قوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اور اس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک و قوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا“{ فیض الباری ، جلد ۲ صفحہ ۳۱۹ ۔ دول الاسلام جلد ۲ صفحہ ۱۰۳}۔
اس مروجہ میلاد کی بدعت اور ممنوع ہونے کے متعلق امت کے سوادِ اعظم نے اتفاقِ رائے کا اظہار کیا ہے چنانچہ :
علامہ عبد الرحمن مغربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”میلاد النبی منانا بدعت ہے، اس لئے کہ اس کو نہ آپﷺ نے،نہ اصحاب نے،نہ خلفاء نے اور نہ ہی ان کے بعدکسی ائمہ نے منایا اور نہ ہی کسی نے اس کی تلقین کی{الشریعۃ البہیۃ،حقیقت المیلاد ص ۴۱}
علامہ سخاوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں” قرونِ ثلثہ میں سے کسی سے یہ عمل منقول نہیں ہے،بلکہ یہ بعد والوں کا ایجاد کردہ ہے “{سبیل الہدی و الرشاد جلد۱ ص ۳۶۴}۔
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” اس میلاد کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں قیاس آرائی پر عمل کیا جاتا ہے“
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یہ محفل چونکہ زمانۂ فخرِ دو عالم ﷺ اور زمانۂ صحابہ اور تابعین و تبع تابعین اور زمانۂ مجتہدین میں نہیں ہوئی، اس محفل کا موجد چھ سو سال بعد کا بادشاہ ہے، جس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں، لہٰذا یہ مجلس بدعت اور گمراہی ہے اور عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ خیر القرون میں کسی نے اس کو نہیں کیا“{فتاوی رشدیہ صفحہ ۴۹}۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں ”ذکرِولادتِ نبوی شریف مثل دیگر اذکارِ خیر کے ثواب اور افضل ہے،اگر بدعات و قبائح سے خالی ہو اس سے بہتر کیا ہے،البتہ جیسا ہمارے زمانہ میں قیودات و شنائع کے ساتھ مروج ہے، اس طرح بے شک بدعت ہے“{امداد الفتاوی جلد ۵ صفحہ ۹۹}
ان کے علاوہ ابنِ حجر عسقلانی، علامہ ابنِ تیمیہ اور مولانا ادریس صاحب میرٹھی رحمہم اللہ وغیرہم نے بھی اس کی شناعت و قباحت کا پردہ چاک کیا ہے۔
نیز ایک سلیم الفطرت ،صحیح الدماغ اور عقلمند انسان بھی عقلی طور پر اس کے جواز کے وجود کو تسلیم نہیں کرسکتا،بلکہ ان خرافات کو دیکھنے یا ان کے متعلق سننے کے بعد آنکھ بند کرکے وہ یہی کہےگا کہ ان خرافات کا اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور اس کے مہذب اصولوں سے کوئی سروکار نہیں،بلکہ یہ یہودیوں، نصرانیوں اور ہندؤوں کے طریقہائے کار ہیں جو کچھ مسلمانوں کی ناسمجھی اور ناعقلی کی وجہ سے اسلام میں در آگئے ہیں۔
بھلا بتائیے تو سہی کہ وہ عمل کیسے درست ہوسکتا ہے؟اور وہ کام کیسے بابِ اجابت تک رسائی حاصل کرسکتا ہے؟کہ جس ذات والا تبار کی بعثت،ساز و رباب، طاؤس و طبل،شہنائی و مزامیر اور چنگ و بربط کے راگ کو صفحۂ دہر سے مٹانے کے لئے ہوئی تھی،آج اسی ذات کی عزت و ناموس کے نام پر ساز و رباب کی تانیں فضا میں پرواز کرائی جاتی ہیں اور بدمست انسان ان کی لَے میں مدہوش ہو کر دنیا و مافیہا سے غافل اور بےخبر ہوجاتا ہے،جس ذات کی عظمت و تقدیس کے آگے خدا کی نورانی اور پاکیزہ مخلوق بھی اپنا سر خم کردیتی ہے اسی ذات کی الفت و محبت کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹ کر طوفانِ بدتمیزی کا بازار گرم کیا جاتا ہے،جس رفیع الشان ہستی کی عظمت و شرافت کا خود فاطرِ کائنات ثنا خواں ہے،در پردہ اسی جلیل القدر ذات کی عظمت کو سرِ بازار پامال کیا جا رہا ہے،جس ذاتِ اقدس نے عورتوں کے سروں پر عزت و شرافت کا تاج رکھا،اور ان کے گلے میں شرم وحیا کا ہار ڈالا آج اسی ذات کے نام پر عورتوں کو برہنہ سر اور برہنہ جسم جشنِ ولادت کے میلوں میں اکٹھا کیا جاتا ہے۔
بارہا یہ منظر مشاہدہ میں آتا ہے کہ جب ”جشنِ ولادت “کے نام پر نام نہاد عاشقانِ رسول کا جلوس نکالا جاتا ہے،تو اس میں عورتوں اور مردوں کا حیا سوز ہنگامہ دیکھنے کو ملتا ہے،حدنگاہ تک فاتر العقل لوگوں کا ازدہام جھومتا اور نعرہ لگاتا نظر آتا ہے،مزامیر آمیز نعت و قوالی اور موسیقی آمیخت فلمی گانوں کی دھنیں بجائی جاتی ہیں،جن کی لَے میں بدمست ہوکر نام نہاد عاشقانِ رسول مجرے کرتے ہیں،ٹھمکے لگاتے اور گھنگھرو بجاتے ہیں اور کچھ منچلے تو اس طرح کی بھی اخلاق سوز حرکتیں کرتے دیکھے جاتے ہیں کہ جب ان کا قافلہ سڑکوں پر سے گزر رہا ہوتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے ہیں بلکہ قطاروں میں کھڑی عمارات کی بالکونیوں اور جنگلوں سے جھانکنے اور تاکنے والی دوشیزاؤں کی طرف ٹافیوں کی بارش کرتے ہیں اور ان کی طرف غمزیں مارتے ہیں،سازوں کی جھنکار اور باجوں کی کھنکار کی وہ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے کہ جس سے ضعیفوں اور کمزوروں کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے، حد تو یہ ہیکہ سب سے آگے بگھی،رتھ یا گاڑیوں پر میرِ کارواں کی حیثیت سے امت کے اس طبقے کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زبانیں خود کو داعیانِ مذہب اور پیشوایانِ ملت کہتے ہوئے نہیں تھکتیں،یہ سارے ہی کام اور یہ تمام خرافات سر تا سر شریعتِ اسلامیہ کے مزاج کے خلاف ہیں۔
یاد رکھئے!حقیقی کامیابی اور کامرانی کا مدارکسی کی موت و حیات پر خوشی کی محفلیں یا نوحہ خوانی کی مجلسیں قائم کرنے پر نہیں ہیں،بلکہ کامیابی کا اصل مدار اس بات پر ہے کہ جس ذات کے لئے ہم یہ خوشی یا غم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اس ذات کے اسوہ کو اپنے اندر ڈھالنے کی کوشش کریں،اس ذات کے بتائے ہوئے طور و طریقے میں اپنے نشانِ منزل تلاش کریں اور اس ہستی کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں اپنی کامیاب زندگی کی راہیں ہموار کریں۔
آج ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم زمانے کی نیرنگیوں میں کھو کر اصل مقصد سے روگردانی کئے ہوئے ہیں،ہمارا نفس بھی اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ وہ ہمارے سامنے مذہب کو سنہرے رنگ میں اس طرح قلعی کرکے پیش کرتا ہے کہ ہم اس کی ظاہری چمک اور دلفریبی میں ہی گم ہوکر رہ جاتے ہیں،اس کی تہہ میں پہونچے بغیر اوپری کلغی کو ہی اصل مقصد سمجھ لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہم اپنی بےغیرتی اور حیا باختگی کا اپنے دین و ایمان کے ساتھ سودا کر ڈالتے ہیں،جوکسی بھی طرح محمود نہیں ہوسکتا۔
لہذا اس پرآشوب دور میں جب کہ لوگ سنتِ نبوی ﷺ کی جگہ مغربی تہذیب کو اپنا رہے ہیں،سنتوں کے نام پر بدعات و خرافات کو فروغ دے رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلک و مشرب سے بالا تر ہو کر ہم سنتِ رسول اور طریقۂ نبی ﷺ کا دامن تھامیں،آپ کی لائی ہوئی اصل تعلیمات کے چراغ کو دنیا کے ہر ظلمت کدے میں روشن کریں،اور اس نیرنگ اور فساد زدہ زمانے میں آپ ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرکے پیغمبرِ امی ﷺ کے بقول ” مَنْ أَحْیَا سُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِیْ فَلَہٗ أَجْرُ مِأَۃِ شَھِیْدٍ“{جو شخص میری امت کے فساد کے زمانے میں میری سنتوں کو زندہ کرے گا اس کو سو شہیدوں کے برابر اجر ملےگا}سو شہیدوں کے برابر اجر کا خود کو مستحق بنائیں۔
دعا ہیکہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا کرے اور منشأ خدا اور اس کے رسول کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی