ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۳
موجودہ فتنۂ ارتداد کی اصل وجہ! جہیز اور مہنگی شادیاں
حضرت مفتی محمداطہرصاحب القاسمی،(ارریہ) نائب صدر :جمعیت علماء (بہار)
حضرت مفتی جاوید اقبال صاحب قاسمی دامت برکاتہم صدر جمعیتہ علماء بہار نے گذشتہ دنوں کشن گنج دورے پر احقر محمد اطہر القاسمی سے بتایا کہ جمعیت علماء ہند کی مجلس عاملہ نے 18/ ستمبر 2021 کو شعبہ اصلاح معاشرہ جمعیت علماء ہند کے تحت ملک بھر میں آسان اور سنت کے مطابق نکاح کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس تحریک کے مطابق نکاح کے موقع سے غیرشرعی اعمال سے بچنے اور مسنون طریقہ پر عمل نکاح کو انجام دینے کی ترغیبی مہم چلائی جائے گی۔
بحمد اللہ اکابرین کی ہدایات کے مطابق جمعیت علماء بہار کی ضلع یونٹ جمعیت علماء ارریہ اپنے بلاک سطحی رضاکاران کے ذریعے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں مارچ 2021 سے ہی ضلع میں مہم چلارہی ہے، جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔الحمد للہ اب تک ایسی کئی شادیاں جمعیت علماء ارریہ کے رضاکاروں کی موجودگی میں انجام پاچکی ہیں۔حالانکہ جیسی محنت ہونی چاہئے ابھی تک ویسی نہیں ہوپائی ہے۔اب جبکہ باضابطہ مجلس عاملہ جمعیت علماء ہند نے شعبہ اصلاح معاشرہ کے تحت بطورِ خاص یہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ انتہائی خوش آئند قدم ہے۔کیونکہ اس وقت اصلاح معاشرہ کے تمام موضوعات میں یہ موضوع انتہائی حساس ہے۔باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو موجودہ فتنۂ ارتداد اور لڑکیوں میں خطرناک حد تک بےحیائی کے اضافہ کی اولین وجہ اگر دینی تعلیم سے دوری ہے تو دوسری اہم وجہ موجودہ معاشرے کی مہنگی شادیاں ہیں۔ایسے میں اب پرانے طرز سے چلائے جانے والے اصلاح معاشرہ کے صرف بڑے بڑے جلسوں اور کانفرنسوں سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اب اسے ایک خطرناک فتنہ سمجھتے ہوئے اس کے تعاقب کے لئے وہ زمینی راہیں تلاش کرنی ہون گی اور سماج و معاشرے کے گھر گھر اور در در تک سنجیدگی کے ساتھ یہ پیغام پہونچاکر اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔اس کی واحد اور موثر شکل یہی ہے کہ ہر علاقے کے حساس علماء کرام،ائمۂ مساجد اور دانش واران قوم وملت سمیت سیاسی اورسماجی کارکنان خواہ وہ کسی ملی جماعت یا پارٹی سے سے وابستہ ہوں یا نہ ہوں، سارے لوگ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور پوری فکرمندی،خلوص،احساس جواب دہی اور جذبۂ خداترسی کے ساتھ پختہ عزم اور منظم و مستحکم انداز میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تشکیل کرکے قریہ قریہ، مسجد مسجد،محلہ محلہ اور گھر گھر قرآن وسنت کے حوالے سے آسان و مسنون نکاح کی دعوت دی جائے۔اور بطورِ خاص جمعیتہ کے کارکنان مرکزی و ریاستی جمعیتہ کی ہدایات کے مطابق اپنی ضلع،شہری اور مقامی یونٹوں کے ساتھ آپس میں مشورہ کرکے باضابطہ منظم انداز میں اپنے گھر سے تحریک کا آغاز کریں۔آسان و مسنون نکاح کی عملی تحریک کا آغاز اپنے گھر،خاندان،رشتے دار، آس پڑوس،محلہ اور گاؤں سے کیاجائے تاکہ اصلاح کا یہ عمل ہماری اس دعوت میں قوت تأثیر کی روح پھونک سکے اور علماء بیزار سماج میں ہمارے پیغام کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لے کر ہمارے معاون اور رفیق سفر بن سکیں۔اور جہاں ایسے مسنون نکاح کی تقریبات منعقد ہوں، جمعیتہ علماء کی مقامی ٹیم وہاں پہونچ کر باضابطہ ایسے گارجین حضرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں خوب خوب مبارکباد پیش کریں اور ساتھ ہی ایسے مسنون نکاح کی تشہیر بھی کریں تاکہ یہ دوسروں کے لئے ترغیب کا ذریعہ بھی بن سکے۔
اس زمینی طریقہ کار سے ایک طرف تو اس فتنے کا عملی تعاقب ہوگا اور دوسری طرف علاقے میں علماء بیزاری کا مزاج بدلے گا،عوام اور علماء کے مابین روابط مستحکم ومستحسن ہوں گے،اپنی ایک امتیازی شناخت قائم ہوگی اور ساتھ ہی جمعیتہ کے وابستگان کے ذریعے سوسالہ تنظیم جمعیت علماء ہند کا تعارف بھی ہوگا۔گذشتہ دنوں ایک نکاح اسی انداز میں منعقد ہوا۔جس میں لڑکے والے جوارریہ ضلع کے فاربس بلاک کے پوٹھیا گاؤں سے متعلق ہیں اور لڑکی والے جو ضلع کے ہرپور رانی گنج سے تعلق رکھتے ہیں۔دونوں ہمارے(محمد اطہر القاسمی)قریبی رشتے دار ہیں۔طرفین کی رضامندی کے بعد احقر کی موجودگی میں ایک چھوٹی سی مجلس میں اس شرط کے ساتھ تاریخ نکاح طے ہوئی کہ بغیر جہیز،بغیر لمبی چوڑی بارات اور بغیر فرمائشی کھانےکے ساتھ نکاح ہوگا اور نقد مہر فاطمی اداکی جائے گی اور ساتھ ہی تقریب نکاح مسجد میں منعقد ہوگی۔الحمد للہ طرفین نے آمنا اور صدقنا کہتے ہوئے الحمدللہ اسی نظام کے تحت عمل نکاح کا فریضہ انجام دیاگیا۔احقر نے ہی نکاح پڑھایا اور ایجاب وقبول کے بعد دولہے کی طرف سے مہر فاطمی جس کی عربی مقدار پانچ سو درہم ہے اور جس کا موجودہ انگریزی وزن ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی (1,530gm,900m,gm) ہے وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دئیے گئے جسے احقر نے دلہن کے اولیاء کو سپرد کر دیا۔ساتھ ہی خطبہ نکاح سے قبل مروجہ رسم جہیز اور اس کی تباہ کاریوں کے تذکرے کے ساتھ آسان اور سنت کے مطابق نکاح کے حوالے سے خطبۂ نکاح کی آیات تقوی کے پس منظر میں چند منٹ کی گفتگو کرتے ہوئے زوجین بطور خاص دولہا اور ان کے معزز رشتے داروں کو جمعیتہ علماء کی طرف سے مبارکباد پیش کی گئی اور اس نکاح کو مثالی نکاح قرار دیتے ہوئے اپنے یہاں اس مہم میں تعاؤن کرنے کی درخواست کی گئی تو دولہے والوں کے ساتھ پوری محفل کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے اسی بابرکت مجلس میں تمام مہمانوں کے ساتھ میزبانوں نے بھی آپس میں عہد و پیمان کیا کہ انشاءاللہ ہم سب بھی اپنے اپنے حلقہ احباب میں ایسے ہی مسنون نکاح کی تقریبات کا اہتمام کریں گے۔
پھر لوگوں نے دولہا محمد اصفر ابن جناب ڈاکٹر شاہد صاحب اور دلہن قاری فاروق صاحب مرحوم کی دختر نیک اختر کو اپنی نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ اچھی اور بہتر ازدواجی زندگی جینے کی قلبی دعاؤں سے نواز۔
ہمارے علاقے میں نکاح کے جو غیر شرعی اعمال ہیں ہم نے یہاں انہیں جمع کرنے کی کوشش کی ہیں۔ممکن ہے کہ دوسرے علاقوں میں کچھ کمی و بیشی ہو۔
نکاح کے غیر شرعی اعمال:
(01)منگنی کی رسم۔(02)مہنگے شادی کارڈ۔(03)ڈیکوریشن/سجاوٹ۔(04)لمبی چوڑی بارات۔(05)بارات میں بالغ لڑکیوں کی شرکت۔ (06)بارات سے پہلے گھوم گھوم کر شکرانہ کھانا۔(07)گانا باجا ڈی جے پٹاخے بازی۔(08)ویڈیو گرافی۔(09)نقد رقم کا مطالبہ۔(10)سامان جہیز کی فرمائش۔(11)مہنگے جوڑوں کی خریداری۔(12)دولہا دلہن کے علاوہ طرفین کے رشتے داروں کےلئے جوڑے کا اہتمام۔(13)غیر محرم عورتوں سے ابٹن۔(14)نکاح سے پہلے اور بعد میں ہندوانہ رسوم کی ادائیگی۔(15)نکاح کے بعد غیر محرم کی موجودگی میں دلہن کی رونمائی۔(16)طرفین کی طرف سے دولت کی نمائش۔(17)مہنگے شادی ہال۔(18)ولیمہ سے پہلے یا بعد میں دعوت۔(19)ولیمہ میں اسلامی طرز طعام کے بجائے بفے سسٹم۔(20)ولیمہ کی دعوت میں دولت کی نمائش۔(21)ولیمہ میں غریبوں کو نظر انداز کرنا۔(22)زوجین کی حیثیت کے برخلاف مہر کی تعیین۔(23)نقد مہر کے بجائے مہر مؤجل یعنی ادھار۔(24)نوروزی کی رسم وغیرہ۔
قارئین کرام!
درج بالا رسمیں بدعات میں شامل ہیں اوردین میں کوئی نئی بات یا نئی رسم نکالنا بدعت کہلاتا ہے، یہ بدعتیں اور بدرسومات وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں بدلتی رہتی ہیں کیونکہ ان کا اپنا تو کوئی وجود نہیں ہوتا۔ بدعات کا سلسلہ ہمیں معاشرہ میں جابجا نظر آتا ہے۔ خواہ وہ شادی بیاہ کی رسومات ہوں، پیدائش و وفات کی رسومات ہوں، غیروں کے تہوارمنانے کی رسومات ہوں، بدعات، رسم و رواج، فضولیات، تکلف، تصنع، نمائش کی دوڑ جگہ جگہ نظر آتی ہیں،جو ہمارے مذہب کی شان کے خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر غیروں کی تقلید کرنا گناہ عظیم ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی حقیقی اسلام ہے ۔ بدعات اور بدرسوم کی راہیں شرک تک لے جاتی ہیں، جیسا کہ ہم اور آپ اکثر جمعہ میں امام وخطیب کو خطبہ دیتے سنا کرتے ہیں۔
کل بدعۃ ضلاله وکل ضلالۃ فی النار(ترجمہ) ہربدعت اور ہر غیر اسلامی رسم گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائےگی، ہمارا پاک اور سچا مذہب تو زندگی میں آسانیاں بانٹتا ہے جبکہ یہ برے رسومات و بدعات زندگی میں مشکلات، تکالیف اور پریشانی کا موجب بنتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ رسمیں ہمیں اپنے معبود حقیقی یعنی خدا تعالیٰ سے دور کردیتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام بدعات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر معاملے میں دستور العمل قرار دینے والے بن جائیں، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق نصیب کرے! آمین ثم آمین یارب العالمین
اس تحریک کے مطابق نکاح کے موقع سے غیرشرعی اعمال سے بچنے اور مسنون طریقہ پر عمل نکاح کو انجام دینے کی ترغیبی مہم چلائی جائے گی۔
بحمد اللہ اکابرین کی ہدایات کے مطابق جمعیت علماء بہار کی ضلع یونٹ جمعیت علماء ارریہ اپنے بلاک سطحی رضاکاران کے ذریعے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں مارچ 2021 سے ہی ضلع میں مہم چلارہی ہے، جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔الحمد للہ اب تک ایسی کئی شادیاں جمعیت علماء ارریہ کے رضاکاروں کی موجودگی میں انجام پاچکی ہیں۔حالانکہ جیسی محنت ہونی چاہئے ابھی تک ویسی نہیں ہوپائی ہے۔اب جبکہ باضابطہ مجلس عاملہ جمعیت علماء ہند نے شعبہ اصلاح معاشرہ کے تحت بطورِ خاص یہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ انتہائی خوش آئند قدم ہے۔کیونکہ اس وقت اصلاح معاشرہ کے تمام موضوعات میں یہ موضوع انتہائی حساس ہے۔باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو موجودہ فتنۂ ارتداد اور لڑکیوں میں خطرناک حد تک بےحیائی کے اضافہ کی اولین وجہ اگر دینی تعلیم سے دوری ہے تو دوسری اہم وجہ موجودہ معاشرے کی مہنگی شادیاں ہیں۔ایسے میں اب پرانے طرز سے چلائے جانے والے اصلاح معاشرہ کے صرف بڑے بڑے جلسوں اور کانفرنسوں سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اب اسے ایک خطرناک فتنہ سمجھتے ہوئے اس کے تعاقب کے لئے وہ زمینی راہیں تلاش کرنی ہون گی اور سماج و معاشرے کے گھر گھر اور در در تک سنجیدگی کے ساتھ یہ پیغام پہونچاکر اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔اس کی واحد اور موثر شکل یہی ہے کہ ہر علاقے کے حساس علماء کرام،ائمۂ مساجد اور دانش واران قوم وملت سمیت سیاسی اورسماجی کارکنان خواہ وہ کسی ملی جماعت یا پارٹی سے سے وابستہ ہوں یا نہ ہوں، سارے لوگ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور پوری فکرمندی،خلوص،احساس جواب دہی اور جذبۂ خداترسی کے ساتھ پختہ عزم اور منظم و مستحکم انداز میں چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی تشکیل کرکے قریہ قریہ، مسجد مسجد،محلہ محلہ اور گھر گھر قرآن وسنت کے حوالے سے آسان و مسنون نکاح کی دعوت دی جائے۔اور بطورِ خاص جمعیتہ کے کارکنان مرکزی و ریاستی جمعیتہ کی ہدایات کے مطابق اپنی ضلع،شہری اور مقامی یونٹوں کے ساتھ آپس میں مشورہ کرکے باضابطہ منظم انداز میں اپنے گھر سے تحریک کا آغاز کریں۔آسان و مسنون نکاح کی عملی تحریک کا آغاز اپنے گھر،خاندان،رشتے دار، آس پڑوس،محلہ اور گاؤں سے کیاجائے تاکہ اصلاح کا یہ عمل ہماری اس دعوت میں قوت تأثیر کی روح پھونک سکے اور علماء بیزار سماج میں ہمارے پیغام کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لے کر ہمارے معاون اور رفیق سفر بن سکیں۔اور جہاں ایسے مسنون نکاح کی تقریبات منعقد ہوں، جمعیتہ علماء کی مقامی ٹیم وہاں پہونچ کر باضابطہ ایسے گارجین حضرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں خوب خوب مبارکباد پیش کریں اور ساتھ ہی ایسے مسنون نکاح کی تشہیر بھی کریں تاکہ یہ دوسروں کے لئے ترغیب کا ذریعہ بھی بن سکے۔
اس زمینی طریقہ کار سے ایک طرف تو اس فتنے کا عملی تعاقب ہوگا اور دوسری طرف علاقے میں علماء بیزاری کا مزاج بدلے گا،عوام اور علماء کے مابین روابط مستحکم ومستحسن ہوں گے،اپنی ایک امتیازی شناخت قائم ہوگی اور ساتھ ہی جمعیتہ کے وابستگان کے ذریعے سوسالہ تنظیم جمعیت علماء ہند کا تعارف بھی ہوگا۔گذشتہ دنوں ایک نکاح اسی انداز میں منعقد ہوا۔جس میں لڑکے والے جوارریہ ضلع کے فاربس بلاک کے پوٹھیا گاؤں سے متعلق ہیں اور لڑکی والے جو ضلع کے ہرپور رانی گنج سے تعلق رکھتے ہیں۔دونوں ہمارے(محمد اطہر القاسمی)قریبی رشتے دار ہیں۔طرفین کی رضامندی کے بعد احقر کی موجودگی میں ایک چھوٹی سی مجلس میں اس شرط کے ساتھ تاریخ نکاح طے ہوئی کہ بغیر جہیز،بغیر لمبی چوڑی بارات اور بغیر فرمائشی کھانےکے ساتھ نکاح ہوگا اور نقد مہر فاطمی اداکی جائے گی اور ساتھ ہی تقریب نکاح مسجد میں منعقد ہوگی۔الحمد للہ طرفین نے آمنا اور صدقنا کہتے ہوئے الحمدللہ اسی نظام کے تحت عمل نکاح کا فریضہ انجام دیاگیا۔احقر نے ہی نکاح پڑھایا اور ایجاب وقبول کے بعد دولہے کی طرف سے مہر فاطمی جس کی عربی مقدار پانچ سو درہم ہے اور جس کا موجودہ انگریزی وزن ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی (1,530gm,900m,gm) ہے وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دئیے گئے جسے احقر نے دلہن کے اولیاء کو سپرد کر دیا۔ساتھ ہی خطبہ نکاح سے قبل مروجہ رسم جہیز اور اس کی تباہ کاریوں کے تذکرے کے ساتھ آسان اور سنت کے مطابق نکاح کے حوالے سے خطبۂ نکاح کی آیات تقوی کے پس منظر میں چند منٹ کی گفتگو کرتے ہوئے زوجین بطور خاص دولہا اور ان کے معزز رشتے داروں کو جمعیتہ علماء کی طرف سے مبارکباد پیش کی گئی اور اس نکاح کو مثالی نکاح قرار دیتے ہوئے اپنے یہاں اس مہم میں تعاؤن کرنے کی درخواست کی گئی تو دولہے والوں کے ساتھ پوری محفل کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے اسی بابرکت مجلس میں تمام مہمانوں کے ساتھ میزبانوں نے بھی آپس میں عہد و پیمان کیا کہ انشاءاللہ ہم سب بھی اپنے اپنے حلقہ احباب میں ایسے ہی مسنون نکاح کی تقریبات کا اہتمام کریں گے۔
پھر لوگوں نے دولہا محمد اصفر ابن جناب ڈاکٹر شاہد صاحب اور دلہن قاری فاروق صاحب مرحوم کی دختر نیک اختر کو اپنی نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ اچھی اور بہتر ازدواجی زندگی جینے کی قلبی دعاؤں سے نواز۔
ہمارے علاقے میں نکاح کے جو غیر شرعی اعمال ہیں ہم نے یہاں انہیں جمع کرنے کی کوشش کی ہیں۔ممکن ہے کہ دوسرے علاقوں میں کچھ کمی و بیشی ہو۔
نکاح کے غیر شرعی اعمال:
(01)منگنی کی رسم۔(02)مہنگے شادی کارڈ۔(03)ڈیکوریشن/سجاوٹ۔(04)لمبی چوڑی بارات۔(05)بارات میں بالغ لڑکیوں کی شرکت۔ (06)بارات سے پہلے گھوم گھوم کر شکرانہ کھانا۔(07)گانا باجا ڈی جے پٹاخے بازی۔(08)ویڈیو گرافی۔(09)نقد رقم کا مطالبہ۔(10)سامان جہیز کی فرمائش۔(11)مہنگے جوڑوں کی خریداری۔(12)دولہا دلہن کے علاوہ طرفین کے رشتے داروں کےلئے جوڑے کا اہتمام۔(13)غیر محرم عورتوں سے ابٹن۔(14)نکاح سے پہلے اور بعد میں ہندوانہ رسوم کی ادائیگی۔(15)نکاح کے بعد غیر محرم کی موجودگی میں دلہن کی رونمائی۔(16)طرفین کی طرف سے دولت کی نمائش۔(17)مہنگے شادی ہال۔(18)ولیمہ سے پہلے یا بعد میں دعوت۔(19)ولیمہ میں اسلامی طرز طعام کے بجائے بفے سسٹم۔(20)ولیمہ کی دعوت میں دولت کی نمائش۔(21)ولیمہ میں غریبوں کو نظر انداز کرنا۔(22)زوجین کی حیثیت کے برخلاف مہر کی تعیین۔(23)نقد مہر کے بجائے مہر مؤجل یعنی ادھار۔(24)نوروزی کی رسم وغیرہ۔
قارئین کرام!
درج بالا رسمیں بدعات میں شامل ہیں اوردین میں کوئی نئی بات یا نئی رسم نکالنا بدعت کہلاتا ہے، یہ بدعتیں اور بدرسومات وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں بدلتی رہتی ہیں کیونکہ ان کا اپنا تو کوئی وجود نہیں ہوتا۔ بدعات کا سلسلہ ہمیں معاشرہ میں جابجا نظر آتا ہے۔ خواہ وہ شادی بیاہ کی رسومات ہوں، پیدائش و وفات کی رسومات ہوں، غیروں کے تہوارمنانے کی رسومات ہوں، بدعات، رسم و رواج، فضولیات، تکلف، تصنع، نمائش کی دوڑ جگہ جگہ نظر آتی ہیں،جو ہمارے مذہب کی شان کے خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر غیروں کی تقلید کرنا گناہ عظیم ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی حقیقی اسلام ہے ۔ بدعات اور بدرسوم کی راہیں شرک تک لے جاتی ہیں، جیسا کہ ہم اور آپ اکثر جمعہ میں امام وخطیب کو خطبہ دیتے سنا کرتے ہیں۔
کل بدعۃ ضلاله وکل ضلالۃ فی النار(ترجمہ) ہربدعت اور ہر غیر اسلامی رسم گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائےگی، ہمارا پاک اور سچا مذہب تو زندگی میں آسانیاں بانٹتا ہے جبکہ یہ برے رسومات و بدعات زندگی میں مشکلات، تکالیف اور پریشانی کا موجب بنتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ رسمیں ہمیں اپنے معبود حقیقی یعنی خدا تعالیٰ سے دور کردیتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام بدعات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر معاملے میں دستور العمل قرار دینے والے بن جائیں، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق نصیب کرے! آمین ثم آمین یارب العالمین