ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۳
اداریہ ( حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کا درد سے لبریز خطبہ)
حضرت الحاج مولاناکبیرالدین فاران صاحب المظاہری ، ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ الفاران
آہ، مسلمانو! کاش،تمہاری رُوح کی آبادی معمور ہوتی، ماہ ربیع الاول کا درود تمہارے لئے جشن ومسرت کا پیغام عام ہوتا ہے تم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت، اس کی یاد میں اسی کے تذکرے میں اور اسکی محبت کی لذت و مسرت میں بسر کرنا چاہتے ہو، پس مبارکبادہیں یہ دل،جنہوں نے عشق و شیفتگی کے لئے رب السموت والارض کے محبوب کو چنا اور کیا پاک و مطہر ہیں یہ زبانیں جو سید المرسلیں رحمتہ العالمین ﷺ کی مدح و ثنا میں زمزمہ سنج ہو جائیں مگر کبھی تم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ یہ کون ہے جس کی ولادت کے تذکرہ میں تمہارے لئے خشیوں اور مسرتوں کا ایسا عزیز پیام ہے؟
آہ!اگراس مہینہ کی آمد تمہارے لئے جشن و مسرت کا پیام ہے کیونکہ اسی مہینہ میں وہ آیا جس نے تم کو سب کچھ دیا تھا تو میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کسی مہینے میں ماتم نہیں۔کیوں کہ اس مہینے میں پیدا ہونے والے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا وہ سب کچھ ہم نے کھو دیا۔ تم اپنے گھروں کو مجلسوں سے آباد کرتے ہومگر تمہیں اپنے دل کی اجڑی ہو ئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے؟ تم کافوری شمعوں کی قند یلیں روشن کرتے ہو!مگر اپنے دل کی اندھیاری دور کرنے کے لئے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈتے. تم پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو مگر آہ! تمہارے اعمالِ حسنہ کا پھول مر جھا گیا ہے . تم گلاب کے چھینٹوں سے اپنے رومال و آستین کو معطر کرنا چاہتے ہو،مگرآہ! تمہاری عظمت اسلامی کی عطر بیزی سے دنیا کی مشام روح یکسر محروم ہے! کاش تمہاری مجلسیں تاریک ہوتیں، تمہارے اینٹ اور چونے کے مکانوں کو زیب وزینت کا ایک ذرہ نصیب نہ ہوتا، تمہاری آنکھیں رات رات بھرکی مجلس آرائیوں میں نہ جاگتیں. تمہاری زبانوں سے ماہ ربیع الاول کی ولادت کے لئے دنیا کچھ نہ سنتی۔ مگر تمہاری روح کی آبادی معمور ہوتی، تمہارے دل کی بستی نہ اجڑتی، تمہارا طالع خفتہ بیدار ہوتا، تمہارے اعمال حسنہ سے نبویﷺ کی مدح و ثنا کے ترانے اٹھتے! تم اس کے آنے کی خوشیاں تو مناتے ہو مگر تم نے اس مقصد کو فرامو ش کردیا ہے جس کے لئے وہ آیا تھا۔ یہ ماہ، اگر خوشیوں کی بہار ہے تو صرف اس لئے کہ اسی مہینے میں دنیا کی خزان ضلالت ختم ہوئی اور کلمہئ حق کا موسم ربیع شروع ہوا. پھر اگر آج دنیا کی عدالت،سموم ِضلالت کے جھونکوں سے مر جھا گئی ہے تو اے غفلت پرستو!تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ بہار کی خوشیوں کی رسم تو مناتے ہو مگر خزاں کی پامالیوں پر نہیں روتے!
اس ماہ کی خوشیاں تو اس لئے ہیں کہ اسی میں کوہِ فاراں پر وہ آتشیں شریعت نمودار ہوئی، جو ذلت و نا مراد ی سے ٹھکرائے جانے کے لئے دنیامیں نہیں آئی تھی کہ ضلالت و شقاوت،نا مرادی و ناکامی کی ذلت سے ٹھکرادی جائے وہ اللہ کے ہاتھ کی چمکائی ہوئی ایک تلوار تھی جس کی ہئیبت وقہاریت نے باطل پرستی کی تمام طاقتوں کو لرزا دیا اور کلمۂ حق کی بادشاہت اور دائمی فتح کی دنیا کو بشارت سنائی۔
ھوالذی أرسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (پارہ۔۸۲۔ سورہ۔الصف۔)
(وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سوجھ دے کر اور سچّا دین کہ اس کو اوپر کرے سب دینوں سے)
وہ مظلوم کی تڑپ نہ تھی بلکہ ظلم کو تڑپانے والی شمشیرتھی، وہ مسکین کی بے قراری نہ تھی بلکہ دنیا کو بے قرار کرنے والوں نے اس سے بیقراری پائی،وہ درد و کرب کی کروٹ نہ تھی بلکہ درد وکرب میں مبتلا کرنے والوں کو اس سے بے چینی کا بستر ملا،وہ کچھ لایا اس میں غمگین کی چیخ نہ تھی،ماتم کی آہ نہ تھی،ناتوانی کی بے بسی نہ تھی اور حسرت و مایوسی کا آنسو نہ تھا، بلکہ یکسر شادمانی کا غلغلہ تھا،جشن و مراد کی بشارت تھی طاقت وفرمانروائی کا اقبال تھا، زندگی کی فیروز مندی کا پیکر و تمثال تھا، فتح مندی کی ہمیشگی تھی اور نصرت و کامرانی کی دائمی۔
لیکن آج جبکہ تم عید میلاد کی مجلس منعقد کرتے ہو تو تمہاری نعت و کامرانی کہاں ہے جو تمہیں سونپی گئی تھی وہ تمہاری روح حیات تمہیں چھوڑ کر کہاں چلی گئی جو تم میں پھونکی گئی تھی، آہ تمہارا خدا تم سے کیوں روٹھ گیا؟ اور تمہارے آقانے تم کو صرف اپنی غلامی کے لئے نہیں رکھا ؟
کیا ربیع الاول میں آنے والے نے خدا کا یہ وعدہ نہیں پہنچایا تھا کہ ذلت تمہارے لئے مقدر ہو گئی ہے اور عزت نے تم سے منھ چھپا لیا ہے۔
یہ کیوں ہے کہ تم نے کامیابی نہ پائی اور کام ومراد نے تمہارا ساتھ نہ دیا؟کیا خداکاوعدہ سچا نہیں؟ تم جو انسانوں کے وعدہ پر ایمان رکھتے ہو اور ان کے حکموں کے آگے گرنا جانتے ہو، خداکا وعدہ لا یخلف المیعادکے لئے اپنے اندر کوئی صدا نہیں پاتے؟
آہ! نہ تو اس کا وعدہ جھو ٹا تھا،نہ اس نے اپنا رشتہ توڑا،یہ تم ہی ہو، تمہاری محرومی اور بے وفائی ہی ہے، تمہارے ہی ایمان کی موت اور راستی کی حرمانی ہے۔ جس نے پیمانِ وفا کو توڑ ااور
خدا کے مقدس رشتہ کی عظمت کو اپنی غفلت و بداعمالی اور غیروں کی پرستش و بندگی سے بٹہّ لگایا۔
خدا اب بھی غیروں کے لئے نہیں بلکہ صرف تمہارے لئے ہی ہے بشرطیکہ تم بھی غیروں کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے ہو جاؤ۔
ارشادِباری تعالی ہے وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ (پارہ۔۴۔ال عمران) (اور تم مایوس نہ ہو اور تم رنجیدہ نہ ہو بلکہ تم ہی دنیا میں سر بلند رہو گے بشرطیکہ تم ایمان رکھتے ہو)
فقط واللہ اعلم