ماہنامہ الفاران

ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۳

جس قوم میں سیاسی شعور نہیں،اس کی کوئی حیثیت نہیں

حضرت مولانا منصوراحمدحقانی صاحب، مہتمم :دارالعلوم حقانیہ بگڈھرا ،ارریہ، بہار۔


قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھرکسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے
آج کے دور میں وطن عزیز کے ہم تمام باشندگان جن نامساعد اور ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے، عوام ایک طرف جہان حکومتی نظام سے پریشان ہیں تو وہیں دوسری جانب سیاسی لوگوں کے غلط رویہ اور ان کے مفاد پرستی کی وجہ سے ہرکوئی نفسی نفسی کے عالم میں ہے اور مختلف پریشانیوں سے دوچار ہے، کیونکہ یہ سیاسی بازیگران اپنی سیاست کو چمکانے اور اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لئے بالعموم باشندگان ملک اور بالخصوص مسلمانوں کو کسی بھی حد تک پہنچا سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں، اس لئے اس نازک صورت حال میں مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتوں پر غور کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے، ان کا قول ہے:-
"اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی ہی نہیں بلکہ سو فیصدتہجد گزار بنادیا جائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کرایا جائے تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی پر بھی پابندی عائد کردی جائے تو کوئی بعید نہیں ہے" ۔آپؒ کی یہ باتیں آج کے دور میں واضح طور پر سامنے آرہی ہیں،جیسا کہ ہم اور آپ گزشتہ دو سالوں سے مشاہدہ کررہے ہیں،کبھی مدرسوں پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں، تو کہیں اذان تو کسی چگہ نمازوں کی ادائیگی پر پابندیاں لگادی جارہی ہیں، اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو ہجومی تشدد (ماب لنچنگ) میں قتل کرنا اور پوری مسلم قوم میں خوف وہراس پیدا کرنا، اس ملک کی سیاست کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ ان سب باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ ہماری قوم وملت میں سیاسی بصیرت اور سیاسی شعور کا فقدان ہے،جس کے سبب عروج کے بجائے ہم زوال پزیر کی جانب گامزن ہیں اور ہم ہیں کہ ابھی تک خواب غفلت ہی نہیں بلکہ خواب خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں، جبکہ ریاست آسام کے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک،ان پر توڑے جارہے ظلم وتشدد کے پہاڑ اور ان کےحالت بد سے ہم بے خبر ہیں،جہاں خود اپنے ملک میں رہتے ہوئے ان کوملک بدر کرنے کا ڈر ستارہا ہے اور ہم برما کے حالات سے بھی سبق نہیں لے رہے ہیں جہاں پہلے مسلمانوں سے ووٹ دینے کا اختیار چھینا گیا اور بعد میں مسلمانوں کو چن چن کر مارا کاٹا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا جن کا ابھی بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے، کوئی بھی مسلم سیاسی رہنما ان بےچاروں کے لئے آگے آنا تودور کی بات ان پر ڈھائے جارہے ظلم وتشدد اور بربریت کے خلاف ایوان بالا میں اپنی آواز تک نہیں اٹھارہے ہیں اور اسی سے ہمت پاکر بی جے پی کے صدر امت شاہ اور ان کے ہمنواؤں کی جانب سےکھلی ہوئی دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ آئندہ ہم پورے ملک میں شہریت بل لاگو کرکے رہین گے اور عیسائی اور سکھوں کے ماسواغیر ہندووں کو ملک سے باہرکاراستہ دکھائین گے یاڈیٹینشن سینٹر کے جہنم میں ڈال کر گھٹ گھٹ کر مرنے کے لئے مجبور کر دین گے اور کئی لیڈروں کی دھمکی آمیز باتیں بھی سامنے آچکی ہیں کہ یا تو یہاں کی سب سے بڑی اقلیت کو حق رائے دہی سے محروم کردیا جائیگا یا آئندہ کوئی الیکشن ہی نہیں ہوگا، ،ہندوستان کے قانون کو بدل دیا جائے گا اور ہندو راشٹر قائم کردیا جائے گا، اس طرح کی اور باتیں ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دراصل ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ رکھا ہے ، دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے ہم میں سے بعض تو اس حد تک سیاست سے کنارہ کشی کئے ہوئے ہیں کہ اس پر بات کرنا یا کسی مناسب امیدوار کی تائید کرنا بھی گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ بھی رکھے ہوئے ہیں کہ سیاست گندی چیز ہے اس سے دور ہی رہا جائے ۔ ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیا ہی خوب کہا ہے :
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشاہو
جدا ہو دین سیاست سےتو رہ جاتی ہے چنگیزی
قائین کرام! درحقیقت سیاست اگر اسلامی نقطۂ نظر سے کیا جائے تو یہ اصلاً خدمت خلق میں شامل ہے جس میں پوری انسانیت شامل ہوگی چاہے مسلمان ہو یا ہندوہو، یا سکھ ہو یا عیسائی کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں، جیسا کہ اپنے ملک کے نامور شاعر جناب تلوک چند محروم صاحب نے اس کی سچی تصویر یوں کھینچی ہے:-
ہندو مسلمان، ہیں بھائی بھائی، تفریق کیسی، کیسی لڑائی
عزت کے قابل ہے بس وہ انساں، نیکی ہو جس کا کار نمایاں
ہراک سےنیکی،سب سے بھلائی، ہندو مسلمان، ہیں بھائی بھائی
اگر شاعر تلوک چند محروم کےان اصول و ضوابط اور عدل وانصاف ہمارے ملک کی سیاست میں اپنایا جائے تو یقینا سماج کا ہر طبقہ ساتھ آجائے گا اور لوگوں کے دلوں میں جو نفرتیں بھر دی گئی ہیں اس کے اندر محبت اور بھائی چارگی پیدا ہوجائے گی۔ اس کے لئے جس طرح ہم اپنے دینی جلسہ یا کوئی پروگرام کرتے ہیں تو اس کے لئے مہینوں پہلے ضلع ،بلاک ،قصبہ ، گاؤں ، محلہ ہر سطح پر محنت کرتے ہیں کہ کس طرح جلسہ یا پروگرام کامیاب ہوجائے اور لوگوں کی اچھی بھیڑ جمع ہوجائے، تو کیا ہم ملک کے موجودہ نازک حالات میں آپسی اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں بقاء اور چین کی زندگی جینے کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار نہیں کرسکتے؟ اگر ہم نے اس میں کوتاہی برتی تو ہماری حالت ویسی ہی ہوجائے گی جیسا کہ کسی شاعر نے اپنے اس شعر میں کیا خوب عکاسی کی ہے۔
یہ جبربھی دیکھاہےتاریخ کی نظروں نے،لمحوں نےخطاکی تھی صدیوں نےسزا پائی
بہر کیف تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء علیہم السلام دین اور سیاست دونوں کے حامل رہے ہیں_ اسلام اس معاملہ میں خصوصی امتیاز رکھتا ہے، کیوں کہ اس کی ابتدائی منزل ہی سیاست سے شروع ہوتی ہے اور اس کی تعلیم مسلمانوں کی دینی اور سیاسی زندگی کے ہرپہلو پر حاوی رہی ہے، قرآن پاک میں جنگ و صلح کے قوانین و احکام موجود ہیں، کتب احادیث و فقہ میں عبادات و معاملات کے پہلو بہ پہلو اور ملکی سیاست کے مستقل ابواب موجود ہیں، دین کے ماہر شرعی سیاست کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔مگر موجودہ دور کی گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر و فریب، جھوٹ رشوت اور دغابازی کا تصور لازم ذات ہوکر رہ گئے ہیں، اسی لئے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں، یہ غلط فہمی سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کا منشاء اتنا برا نہیں ہے لیکن نتائج بہت برے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ دور کی سیاست بلاشبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لئے آگے نہیں آئین گے تو یقیناً اس کی گندگی میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کررہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: " إن الناس إذا رأوا الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللّہ بعقاب" (أبوداوٴد شریف: ۲/۵۹۶) اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمائیں، اگر آپ اپنی کھلی آنکھوں سےدیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے اور انتخابات میں حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی حد تک مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑکر اس ظلم کو روکنے کی مقدوربھر کوشش کریں! اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو پھر یاد رکھیں! جس طرح ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ہجومی تشدد (مابلنچنگ) ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی بہن بیٹیوں کی عصمت وعفت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اور ہر چہار جانب ارتداد کی جو ہوا چل رہی ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہونے والے ہیں، کیوں کہ جس طرح گائے کے نام پر یا اشتعال انگیز نعروں نے ملک کے مختلف صوبوں میں سیدھے سادے اور شریف مسلمان، کہیں اخلاق تو کہیں پہلوخان، کوئی افراز الاسلام تو کبھی حافظ جنید اور تبریزانصاری وغیرہ کے نام سے ناجانے کتنے اور مسلمان آر ایس ایس، بجرنگ دل اور ہندو مہاسبھا کے غنڈوں کے ہاتھوں پھینٹ چڑھتے رہیں گے اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتے ہی رہ جائین گے یا زیادہ سے زیادہ لاحاصل احتجاج کرین گے اور اس طریقۂ کار کو اختیار کرکے نا تو آپ بھگوا دہشت گرد کو لگام لگا سکتے ہیں اور نہ ہی ظالم حکمرانوں کی نکیل کس سکتے ہیں، کیوں کہ اس کے لئے آپ کے پاس طاقت نہیں ہے اور طاقت کے لئے آپ کو حکومت کا حصہ بننا ہوگا اور اس کے بغیر ملک ہندوستان میں نہ آپ کا کوئی وزن ہے اور نہ آئندہ رہے گا اس لئے اب اپنے ذہن و دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ مسلمانوں خصوصاً علماء کرام کو میدان سیاست میں قدم رکھنا جائز ہے؟ یا ناجائز ہے؟ اگر انہیں جھنجھنٹوں میں پھنسے رہیں تو پھر علامہ اقبالؒ کا یہ شعر بھی ذہن نشین کرلیں۔
نہ سمجھو گےتومٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو !،تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی، داستانوں میں
ہندوستانی مسلمانوں! آپ ہر گز اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ہم تعداد میں کافی ہیں یہ ہندو ہمارا کیا بگاڑلیگا ؟ اگر واقعی اس غلط فہمی میں ہیں تو پھر آپ کو اندلس، اسپین کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا ورنہ سینکڑوں قلم کاروں کی تحریر و تقریر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایسی ہی ہون گی جیسا بھینس کے آگے بِین بجانا۔ اس لئے سیاسی بیداری کے لئے آگے آئیں اور اپنی جان و مال کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے ہندوستانی سیاست کا دیانتدار حصہ بنئے، کیوں کہ دین اسلام اور سیاست کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس لئے وقت کو غنیمت جانیں اور اپنے اپنے علاقوں سے سیاسی بصیرت رکھنے والے افراد کی حمایت کر کے ان کو آگے بڑھائیئے تاکہ مسلمانوں کی جان و مال اورعزت و آبرو محفوظ رہیں۔ سیاست دین کا حصہ ہے اور سیاست دین کے تناظر میں معاشرے کی ضرورت ہے اور ایک ایماندار سیاست دان سماج کے ہر مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر دین کو سیاست سے جدا کر دیا جائے تو اس کی مثال اس سوکھے درخت کی سی ہے جو سوکھ کر اپنی ہریالی اورتازگی کھو دیتاہے۔ سیاست کا دین کے بغیر تصور دشمن اسلام کی سازشوں میں سے ایک سازش ہے۔ اسلام مخالف گروہوں نے کئی سالوں کے تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے مفادات کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ آئین الہی اور اس کے اجتماعی قوانین ہیں اور دشمنان اسلام کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان سیاست کو دین سے الگ رکھے تاکہ ہم اپنے مقاصد اور عزائم میں کامیابی حاصل کرتے رہیں۔
قارئین کرام! ایک بہت ہی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ سیاست میں سب سے اہم طاقت ووٹ کی طاقت ہوتی ہے اور آج کی تاریخ میں مسلم سماج کے پاس ووٹ کی اتنی طاقت ہے کہ اگر اس کا مینیجمنٹ صحیح طریقے سے کیا جائے تو ہم اپنے ساتھ ہونے والی ساری نا انصافیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، اور آئین ہند میں دئیے گئے اپنے حقوق کو بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ بس اس کیلئے ووٹ دینے کے شعور کو سیکھ لیں۔ میرے خیال سے مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضرورت سیاسی شعور کی ہے۔ کیوں کہ اگر ہم آزادی کے بعد ہندستان میں رہنے والی دیگر قوموں کو دیکھیں جن کے یہاں آزادی کے وقت مسلمانوں سے کم تعلیمی لیاقت تھی وہ قومیں بھی چند دہائیوں میں مسلمانوں سے ترقی میں بہت آگے نکل گئیں اور آج ان میں اور مسلمانوں میں تعلیم کے میدان میں وہ فاصلہ نہیں ہے جو فاصلہ ترقی کے میدان میں ان قوموں نے حاصل کیا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ قومیں اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ کرتی ہیں اور سیاسی طور پر بالغ النظری کا ثبوت دیتی ہیں، جب کہ ہم مسلمان مختلف قسم کے جذباتی ایجنڈوں میں بہک جاتے ہیں اور شخصیت پرستی اور ذات پات میں بھی بٹ جاتے ہیں،جس کا فائدہ غیروں کو ہوجاتا ہے، گویا ہم مسلمانوں میں سیاسی شعور کا فقدان ہے،جس کے سبب ہی ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود بھی ہرطرح کے مظالم کے شکار ہم ہوتے ہیں، اسی لئےتو مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلمانوں کو سیاسی شعور اور قوت فکر وعمل پیدا کرنے کے لئے سبق دیا ہے:-
قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے ،پھرکسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی