ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۳
حضرت شیخ الہند ؒ اور ان کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت مفتی محمدمناظر نعمانی قاسمی، استاد تفسیر و عربی ادب، جامعہ حسینیہ،مدنی نگر،کشن گنج،بہار
۷۵۸۱ء کی قیامت خیزہولناکی اورہوش ربا ر ستاخیزی کے بعد ایشیا کی عظیم علمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا جب قیام عمل میں آیا تو اس درسگاہ کے پہلے استاذ مولانا محمود نوراللہ مرقدہ کے سمانے زانوے تلمذ تہ کرنے والا سب سے پہلا طالب ِ علم یہی محمود حسن تھا، جو اس وقت اپنی عمر کی پندرہویں بہار دیکھ رہا تھا، مگر یہ بہار بہار نہیں بلکہ فرنگیوں کی چیرہ دستی اور جبر وتشدد سے مسموم شدہ ایک فضا تھی، پھر جس ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں اور شعور واحساس کے جس ماحول میں پرورش پائی اس میں ظلم استبداد،طوق وسلاسل اور دار ورسن کے علاوہ کچھ تھاہی نہیں، اوقاف خر د وبرد ہوچکے تھے، ہندوستان میں علم حدیث کی نشأۃ وتاسیس کرنے والے خاندانِ ولی اللّٰہی کی بچھائی ہوئی اور پھیلائی ہوئی علمی بساط لپٹی جاچکی تھی، شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی قدس سرہ حجاز مقدس کو اپنا وطن مالوف بنا چکے تھے، شاہ عبد الغنی محدث دہلوی قدس سرہ نے اس بزم ولی اللہ کو سجائے رکھنے کی پوری کوشش کی مگر حالات تھے جو دیگر گوں ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اس طرح دہلی مرحوم جو شب وروز قال اللہ وقال الرسول کی صدائے دلبری سے مست خرام رہتی تھی اب خاموش اور اداس تھی۔ (حیات اور کارنامے۱۳)
بدلتے ہوئے حالات اور الامام نانوتوی ؒ کی تربیت اور دارالعلوم دیوبند کے مقصد قیام یکے بعد دیگرے ان تینوں چیزوں نے حضرت شیخ الہند کو حد درجہ متأثر کیااور آپ نے ذہنی طور پر وطن عزیز کی استخلاص کے لئے منصوبہ بندی شروع کی کیوں کہ جس نقطہئ نگاہ سے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تھا اس کی عملی تشکیل ضروری تھی، اس لئے آپ نے اُس نقطہئ نگاہ کی جس کی خود آپ نے اس طرح تشریح کی ہے کہ:
”مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا، جہاں تک میں جانتا ہوں ۷۵۸۱ء کے ہنگامہ کی ناکامی کے بعد یہ ادارہ قائم کیا گیا، تاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے، تا کہ ۷۵۸۱ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے“ (تاریخ دارالعلوم ۱/ ۴۴)
یہی وہ نظریہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے اپنی پوری زندگی صرف کردی، دارارلعلوم سے باہر ٓائے، حجاز، مصر اور مالٹا کی صعوبتوں کو برداشت کیا، آپ کا یہ منصوبہ اتنا ہمہ گیر اور تحریک اتنی منظم تھی کہ ہندوستان بھر کے تمام اعلیٰ سیاستداں رہنما وقائدین ورطہئ حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اوران کے لئے حیرت واستعجاب کے علاوہ کو ئی اور چارہ بھی نہیں تھا، کیوں کہ اس وقت ملک اتنا سہما ہوا اور اس قدر خوف زدہ تھا کہ کسی کو لب کشائی کی جرأت تک نہ تھی اور نہ ہی کو ئی آزادی کے ریزولیشن کی بات کر سکتا تھا، چہ جائے کہ کوئی کسی تحریک کے بارے میں سوچتے، پھرحیرت اس وجہ کر اور بھی زیادہ تھی کے یہ انقلاب ایک ایسے آدمی کی طرف سے بر پا ہونے والا تھا جو مسند درس میں بیٹھ کر قال اللہ وقال الرسول کہنے والا تھا، بوریہ نشین اور زہد وتقویٰ،شب بیداری اورآہِ سحر گاہی کا پابند تھا۔ اس لئے اس وقت لوگوں کو حیرت ہوئی مگر جب راز کھلا تواپنے اور بیگانے موافق اور مخالف سبھوں نے یہ اعتراف کیا کہ:
شیخ الہند نے جو منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کے ایک ایک جزء پر وہ بصیرت مندانہ نظر رکھتے تھے اور اسکیم کے ہر پہلو پر ان کی مبصرانہ نگاہیں تھیں، قدر ت نے ان میں یہ صلاحیتیں ودیعت کررکھی تھیں، اس لئے انہوں نے بصیر ت کی پوری روشنی میں ہندوستان میں انقلاب کا نقشہ بنایا تھا، یہ تو حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اس پیش قدمی کا آغاز بھی نہیں ہواتھا اور صہبائے جہاد کا سرور بھی نہیں آیا تھا کہ: ع آں قدح بشکست وآں ساقی نماند (حیات اور کارنامے ۶۲)
آپ کو محبوبیت کے اس مقام اور کمالات کی ام بلندیو ں تک اصل محرک اتباع شریعت،عشق رسول شب بیداری اور آہِ سحر گاہی ہیں۔ آپ زندگی کے ہر موڑ پر سنت نبوی پر عمل کرنے کی کوشش کرتے، چنانچہ:
(۱) آپ کا معمول تھا کہ وتروں کے بعد دوگانہ بیٹھ کر ادافرماتے، ایک مرتبہ ایک شاگرد نے کہا کہ حضرت بیٹھ کر پرھنے میں تو آدھا ثواب ملتا ہے، تو حضرت شیخ الہند ؒ نے عشق رسول ا میں ڈوبا ہوا یہ جواب مرحمت فرمایا کہ بیٹھ کر پڑھنا نبی علیہ السلام سے ثابت ہے:
ہمیں تو مطلب ہے بندگی سے ہم ثواب وعذاب کیا جانیں
کس میں کتنا ثواب بنتا ہے عشق والے حساب کیا جانیں
(۲)جب بھی آپ کے سامنے کوئی نیا پھل پیش کیا جاتا تو آپ اس کی خوشبو سونگھتے اور آنکھوں سے لگا کر کسی بچہ کو دیدیتے، کیوں کہ نئے پھل کے سلسلے میں نبی کریم ا کی سنت مبارکہ تھی۔
(۳)نبی کریم کی سنتوں اور ارشادات سے آپ کی والہانہ عقیدت ومحبت کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ آقا ء علیہ السلام کا فرمان ہے نعم الادام الخل“ یعنی سرکہ بہترین سالن،اس لئے جب بھی دسترخوان پر سرکہ ہوتا آپ تمام چیزوں سے زیادہ اس کی طرف رغبت فرماتے۔
(۴)مریضوں کی عیادت کے لئے پیغمبر علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے:
اَفْضَلُ العِیَادَۃِ اَجراً اَخَفُّہا قِیاماً (شعب الایمان ۴۸۷۸) "اجر کے اعتبار سے افضل ترین عیادت وہ ہے جس میں آدمی مریض کے پاس کم سے کم ٹھہرے "
اس لئے آپ معمول نبی کے مطابق ہی کسی مریض کے پاس ٹھہرتے، چنانچہ ایک مرتبہ دارالعلوم کے استاذ شاہ اصغر حسین صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو مصافحہ اور حال واحوال دریافت کرنے کے بعد رخصت ہوگئے اور فرمایا ”العیادۃ فواق ناقۃ“(شعب الایمان ۶۸۷۸)
(۵)زندگی کے اخیر ایام میں بھی شوق عبادت اور اتباع سنت کا غلبہ اتنا زیادہ تھا حضرات خدام کے اصرارکے باوجود بھی تین تین اور چار چار پارے تروایح وتہجد میں کھڑے ہوکر ادافرماتے جس سے پاؤں میں ورم آجاتے تو فرط ِ مسرت سے فرماتے کہ الحمد للہ زندگی میں آقا ء مدنی کریم ا کی اس سنت کی بھی اتباع کی توفیق مل رہی ہے، اسی بنیاد پر حضرت شیخ الہند ؒ کے متعلق شورش کاشمیری نے کہا ہے:
گردش دوراں کی سنگینی سے ٹکڑاتا رہا ،الٹا میں نغمہئ صبر ورضا گاتا رہا
واقعہ یہ ہے کہ شمع عشق کاپروانہ تھا ،خواجہئ کون ومکاں کے نام کا دیوانہ تھا
الغرض یہ حضرت شیخ الہند ؒ کی پوری زندگی اتباع شریعت وسنت کا نمونہ تھی، جس کی یہ چند جھلکیاں پیش کی گئیں، تاکہ ہم اصاغر جو اپنے انہی اکابر وبزرگانِ دین کے نام لیوا ہیں اپنے اکابر واسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی فکر وسعی کریں۔ اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضیٰ۔
بدلتے ہوئے حالات اور الامام نانوتوی ؒ کی تربیت اور دارالعلوم دیوبند کے مقصد قیام یکے بعد دیگرے ان تینوں چیزوں نے حضرت شیخ الہند کو حد درجہ متأثر کیااور آپ نے ذہنی طور پر وطن عزیز کی استخلاص کے لئے منصوبہ بندی شروع کی کیوں کہ جس نقطہئ نگاہ سے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تھا اس کی عملی تشکیل ضروری تھی، اس لئے آپ نے اُس نقطہئ نگاہ کی جس کی خود آپ نے اس طرح تشریح کی ہے کہ:
”مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا، جہاں تک میں جانتا ہوں ۷۵۸۱ء کے ہنگامہ کی ناکامی کے بعد یہ ادارہ قائم کیا گیا، تاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے، تا کہ ۷۵۸۱ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے“ (تاریخ دارالعلوم ۱/ ۴۴)
یہی وہ نظریہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے اپنی پوری زندگی صرف کردی، دارارلعلوم سے باہر ٓائے، حجاز، مصر اور مالٹا کی صعوبتوں کو برداشت کیا، آپ کا یہ منصوبہ اتنا ہمہ گیر اور تحریک اتنی منظم تھی کہ ہندوستان بھر کے تمام اعلیٰ سیاستداں رہنما وقائدین ورطہئ حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اوران کے لئے حیرت واستعجاب کے علاوہ کو ئی اور چارہ بھی نہیں تھا، کیوں کہ اس وقت ملک اتنا سہما ہوا اور اس قدر خوف زدہ تھا کہ کسی کو لب کشائی کی جرأت تک نہ تھی اور نہ ہی کو ئی آزادی کے ریزولیشن کی بات کر سکتا تھا، چہ جائے کہ کوئی کسی تحریک کے بارے میں سوچتے، پھرحیرت اس وجہ کر اور بھی زیادہ تھی کے یہ انقلاب ایک ایسے آدمی کی طرف سے بر پا ہونے والا تھا جو مسند درس میں بیٹھ کر قال اللہ وقال الرسول کہنے والا تھا، بوریہ نشین اور زہد وتقویٰ،شب بیداری اورآہِ سحر گاہی کا پابند تھا۔ اس لئے اس وقت لوگوں کو حیرت ہوئی مگر جب راز کھلا تواپنے اور بیگانے موافق اور مخالف سبھوں نے یہ اعتراف کیا کہ:
شیخ الہند نے جو منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کے ایک ایک جزء پر وہ بصیرت مندانہ نظر رکھتے تھے اور اسکیم کے ہر پہلو پر ان کی مبصرانہ نگاہیں تھیں، قدر ت نے ان میں یہ صلاحیتیں ودیعت کررکھی تھیں، اس لئے انہوں نے بصیر ت کی پوری روشنی میں ہندوستان میں انقلاب کا نقشہ بنایا تھا، یہ تو حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اس پیش قدمی کا آغاز بھی نہیں ہواتھا اور صہبائے جہاد کا سرور بھی نہیں آیا تھا کہ: ع آں قدح بشکست وآں ساقی نماند (حیات اور کارنامے ۶۲)
آپ کو محبوبیت کے اس مقام اور کمالات کی ام بلندیو ں تک اصل محرک اتباع شریعت،عشق رسول شب بیداری اور آہِ سحر گاہی ہیں۔ آپ زندگی کے ہر موڑ پر سنت نبوی پر عمل کرنے کی کوشش کرتے، چنانچہ:
(۱) آپ کا معمول تھا کہ وتروں کے بعد دوگانہ بیٹھ کر ادافرماتے، ایک مرتبہ ایک شاگرد نے کہا کہ حضرت بیٹھ کر پرھنے میں تو آدھا ثواب ملتا ہے، تو حضرت شیخ الہند ؒ نے عشق رسول ا میں ڈوبا ہوا یہ جواب مرحمت فرمایا کہ بیٹھ کر پڑھنا نبی علیہ السلام سے ثابت ہے:
(۲)جب بھی آپ کے سامنے کوئی نیا پھل پیش کیا جاتا تو آپ اس کی خوشبو سونگھتے اور آنکھوں سے لگا کر کسی بچہ کو دیدیتے، کیوں کہ نئے پھل کے سلسلے میں نبی کریم ا کی سنت مبارکہ تھی۔
(۳)نبی کریم کی سنتوں اور ارشادات سے آپ کی والہانہ عقیدت ومحبت کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ آقا ء علیہ السلام کا فرمان ہے نعم الادام الخل“ یعنی سرکہ بہترین سالن،اس لئے جب بھی دسترخوان پر سرکہ ہوتا آپ تمام چیزوں سے زیادہ اس کی طرف رغبت فرماتے۔
(۴)مریضوں کی عیادت کے لئے پیغمبر علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے:
اَفْضَلُ العِیَادَۃِ اَجراً اَخَفُّہا قِیاماً (شعب الایمان ۴۸۷۸) "اجر کے اعتبار سے افضل ترین عیادت وہ ہے جس میں آدمی مریض کے پاس کم سے کم ٹھہرے "
اس لئے آپ معمول نبی کے مطابق ہی کسی مریض کے پاس ٹھہرتے، چنانچہ ایک مرتبہ دارالعلوم کے استاذ شاہ اصغر حسین صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو مصافحہ اور حال واحوال دریافت کرنے کے بعد رخصت ہوگئے اور فرمایا ”العیادۃ فواق ناقۃ“(شعب الایمان ۶۸۷۸)
(۵)زندگی کے اخیر ایام میں بھی شوق عبادت اور اتباع سنت کا غلبہ اتنا زیادہ تھا حضرات خدام کے اصرارکے باوجود بھی تین تین اور چار چار پارے تروایح وتہجد میں کھڑے ہوکر ادافرماتے جس سے پاؤں میں ورم آجاتے تو فرط ِ مسرت سے فرماتے کہ الحمد للہ زندگی میں آقا ء مدنی کریم ا کی اس سنت کی بھی اتباع کی توفیق مل رہی ہے، اسی بنیاد پر حضرت شیخ الہند ؒ کے متعلق شورش کاشمیری نے کہا ہے:
الغرض یہ حضرت شیخ الہند ؒ کی پوری زندگی اتباع شریعت وسنت کا نمونہ تھی، جس کی یہ چند جھلکیاں پیش کی گئیں، تاکہ ہم اصاغر جو اپنے انہی اکابر وبزرگانِ دین کے نام لیوا ہیں اپنے اکابر واسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی فکر وسعی کریں۔ اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضیٰ۔