ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۳
محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم
حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب المظاہری، ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش وسرپرست ماہنامہ الفاران
سیرت کے عنوان پر یہ تقریر آل انڈیا ریڈیو پٹنہ نے 13 فروری1986ء کو نشرکیا اور تعمیر حیات نے 25اگست 1988ء کو محبت فاتحِ عالم،، کے زیر عنوان شائع کیا،،
”میں نے لقمان کی دانائی پڑھی، ارسطو کی منطق اور فلسفہ پڑھا، بو علی سینا، کی حزاقت و طبابت پڑھی، رستم و سہراب کا جائزہ لیا، لینن و کارل مارکس کے فارمولے پڑھے مشرق و مغرب کی ساری لیڈرشپ اور عرب و عجم کے تمام لیڈروں کا بغور جائزہ لیا، لیکن مجھے ایساقائد جس کی شخصیت کا ہر پہلو بے داغ اور محبوب ہو جس سے اپنے اور پرائے محبت کرنے پر مجبور ہو جائیں، ان میں سے کوئی نظر نہیں آتا سوائے عربی ﷺ۔اسلئے کہ دوسرے کسی میں اگر کوئی خوبی نظر آتی ہے تو وہ وقتی ہے، علاقائی ہے یا اسکی اپنی قوم تک تعلق رکھتی ہے اور محدود ہے“
یہ تبصرہ اور رپورٹ ہے، ایک نصرانی اخبار نویس کی جس نے دنیا بھر کے صحافیوں کو دعوتِ تحریردی تھی کہ ہر ایک اپنی پسند یدہ شخصیت پر کوئی مضمون لکھ بھیجیں جو انسانی برادری کے لئے یکساں واجب الاحترام ہو، جس کی شخصیت کا سب اعتراف اور اقرار کرتے ہوں۔
He was the only man in history who was the supremely successful on both religious and secular level
(Dr. Michale H. Hart the 100, New York, 1978)
در حقیقت سرورِ کونین رحمت للعالمینﷺ کی زندگی کا ہر پہلو،آپ کی سیرت کا ہر جز ء انقلاب آفریں پیغام اور آب ِ حیات کا درجہ رکھتا ہے اور قیامت تک کیلئے انسانیت کی فوز و فلاح کا وہ معیار بھی ہے، اور اسمیں کوئی زاویہ بربریت اور وحشت کا نظر نہیں آتا۔
آپ نے مٹی کے ذرّوں،پانی کے قطروں،اُمنڈتے بادلوں، چڑھتی گھٹاؤں، کو ندتی بجلیوں،زمین کی پستیوں اور بلندیوں،خشکیوں ا ور تریوں میں خدا کے جلوے انسانوں کو دکھائے،دشمنوں کو اپنی دلفریب تعلیم و تربیت سے اپنا جاں نثار بنایا، انسانوں میں سے مال و دولت، نسل اور رنگ کے بھید بھاؤ کو یکسر مٹایا، حسب و نسب کے بُت پاش پاش کئے، اونچ نیچ کے فرق کو نیست و نابود کردیا۔
فخر الانبیاء ختم الرسل کی ذات ِ مقدس کے جس شعبہئ زندگی کا بھی مطالعہ کیا جائے شفقت ہی شفقت، رحمت ہی رحمت نظر آتی ہے۔
رسمِ دنیا ہے اطاعت کے جواب مین شفقت،عقیدت کے جواب میں الفت، بے مروتی کے بدلے سلوک، یہ خصوصیت ہے محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔
عام طور پر جب انسان کے پاس دولت و طاقت کی فراوانی ہوتی ہے تو اس کا اخلاق گر جاتا ہے لیکن حضور اکرمؐ کو جوں جوں معاشی و سیاسی طاقت حاصل ہوتی گئی آپ کے اخلاقِ حسنہ پر مزید رنگ چڑھتا گیا۔
تاریخ ِ عالم میں کوئی مثال نہیں ملے گی جس کو گالیا ں دی گئیں ہوں اس نے تحفہ پیش کیا ہو،جس کو خاردار راستہ پر چلایا گیا ہو،اسکے عوض پھول نچھاور کیے ہوں، جس نے پتھر برسائے ہوں اسکو گلدستہ پیش کیا ہو۔
اگر وہ مثال اور نمونہ ملے گا تو و ہ سرزمینِ حجاز کے باسی،وہ ارضِ بطحا میں گشت کرتے سالارِ قوم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں ملے گا۔
کون نہیں جانتا کہ فتحِ مکّہ کے بعد صحنِ حرم میں دشمنانِ اسلام، سردارانِ قریش جمع تھے،ان میں وہ بھی تھے جس نے حضرت بلالؓ کو تپتی ریت پر گھسیٹا تھا، ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے حضرت خباب ؓکو دہکتے انگاروں پر لٹایا تھا اوران میں وہ ننگ اسنانیت بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کے جاں نثاروں کو ظلم و ستم کا تختہئ مشق بنایا تھا، اور فخر ِ موجودات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک کو دُکھی کیا تھا، سرکار دو عالم ؐ نے سب کو مخاطب ہو کر دریافت فرمایا کہ اے قریش!کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کروں؟
قریش مزاج شناس تھے،تاڑگئے،آواز میں رحمت کی بُو آتی ہے،رحمت کا سہارا لیکر بولے خیراًاخ کریم و ابن اخ کریم۔آپ سے بھلائی ہی کی توقع رکھتے ہیں، اسلئے کہ آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں، شریفوں سے نیکی کی ہی امید کی جا سکتی ہے۔ نبی رحمت ؐ نے فرمایا! گھبراؤ نہیں جاؤ! مکّہ کی ماؤں سے کہہ دو! تمہاری ممتا نہیں لوٹی جائے گی، مکّہ کے بچّوں سے کہہ دو تمہیں یتیم نہیں بنایا جائے گا، مکّہ کی بہنوں سے کہہ دو تمہارے دوپٹّے اتارے نہیں جائیں گے۔
آج جس نے گلے پر تلوار چلائی تھی اسکو گلے سے لگایا جائے گا،جس نے سینے میں خنجر گھونپا اسکو سینے سے چمٹایا جائے گا، جو پیغام موت بنکر حملہ آورتھا اسکو جامِ حیات دیا جا ئے گا۔لا تثریب علیکم الیوم اذھبواو انتم الطلقاء آج تم پرکوئی مواخذہ نہیں جاؤ! تم سب کے سب آزاد ہو پھر اعلان فرمایا۔
آج جو ابو سفیان کے گھر چلا گیا اسکوامان ہے۔ جو مسجد ِ حرام میں داخل ہو گیا اسکو امان ہے۔جس نے گھر کا دروازہ بند کر لیا اسکو امان ہے الیوم یوم المرحمۃ آج بدلہ نہیں،معافی کا دن ہے۔
وحشی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عمِ محترم حضرت امیر حمزہ ؒ کا قاتل تھا، ہندہ جو رئیس ِ کفار ابو سفیان کی بیوی تھی وہ ہندہ جو معرکہئ احد میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گا گا کر سپاہیوں کا دل بڑھاتی اور جوش دلاتی تھی اسنے نذر مان رکھی تھی کہ جب تک حمزہ کا کلیجہ چاک کر کے نہ چباؤں گی اسوقت تک چین نہ لونگی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ شہید کردئے جاتے ہیں ہندہ سینہ چاک کرتی ہے،کان،ناک کاٹ کر ہار بناتی ہے، کلیجہ چباتی ہے اور نا پاک روح کو جھوٹی تسلّی دیتی ہے۔
ان میں عکرمہ بھی تھا جو دشمنِ اسلا م ابو جہل کا فرزندتھا، اسمیں صفوان بن امیہ تھا جو مسلمانوں کا شدید ترین دشمن تھا، ہبار بن اسود جو ایک حد تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کا قاتل تھا۔ابو سفیان جو سرغنہ ئکفر و شرک تھا، یہ سب ایک باربارگاہ ِ رسالت عزت مآب میں باریاب ہوئے اور اپنے قصور کا اعتراف کیا، دفعۃً بابِ رحمت وَ ا ہوا۔ دوست و دشمن کی تمیز یکسر مفقود ہو گئی۔
جو قابو پاکے، لاتشریب کا مژدہ سناتاہو :کوئی فاتح زمانے میں، نہیں ایسا کہیں ایسا
آپ نے طائف کا نام سنا ہوگا۔ وہ طائف جس نے مکّہ کے عہدستم میں آپ کو پناہ نہیں دی۔بات تک نہ سننی چاہی۔ جہاں آپکی تحقیر کی گئی۔جہاں بازار والوں نے آپکی ہنسی اڑائی۔شہر کے اوباش ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور پتھروں کی بارش برسائی۔آپ لہو لہان ہو گئے۔حتٰی کے نعلین مبارکین خون سے بھر گئے۔ جب تھک کر بیٹھ جاتے تو شریر آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے جب آپ چلنے لگتے تو پھر پتھر برساتے۔پہاڑکے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جاؤ! میرے محبوب کو جس طرح ہو تسکین دو۔ فرشتہ دست بستہ عرض خدمت ہوا۔ یا رسول اللہ!اجازت ہو توان بدبختوں اور گستاخوں کو پہاڑ کے بیچ پیس دیں کہ صفحہئ ہستی پر نام و نشان تک نہ باقی رہ جائے۔
موقع تھا کہ آج او باشو ں کے شر کا دنداں شکن جواب دیا جاتا،اینٹ کا جواب پتھر نہیں چٹّانوں سے دیا جاتا۔ رحمت ِ عالم کی صفتِ رحمی ملاحظہ فرمائیے۔
جناب رحمت اللعالمین نے، سن کر فرمایا :کہ میں اس دہر میں،قہر و غضب بن کر نہیں آیا
میں کیوں انکے لئے، قہر الٰہی کی دعامانگوں :بشر ہیں بے خبرہیں،کیوں تباہی کی دعا مانگوں
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن اس قدر تکلیف پہنچی تھی کہ نو برس بعد جب حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا؟کہ تمام عمر میں سب سے زیادہ تکلیف کا دن آپ پر کون سا آیا؟ تو آپ نے اسی طائف کا ذکر فرمایا کہ وہ شام میری زندگی کی سخت ترین شام تھی۔
عبد اللہ بن اُبی رئیس المنافقین تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی درپردہ دشمنی میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ہر موقع پر خفیہ سازشوں کا جال پھیلاتا۔حضورﷺاور مسلمانوں کی اہانت کا اعلانیہ مرتکب ہوتا، اسی پر بس نہیں! حضرت عائشہؓ پر افترا پردازی سے باز نہیں آیا، آپ ﷺ نے ہمیشہ درگزر کیا، یہاں تک کہ اسکے انتقال پر کفن کے لئے اپنا کرتا مرحمت فرمایا۔ یکتائے روزگار کی شانِ رحیمی دیکھئے۔
سخی وقت حاتم طائی کی بیٹی سفا نہ ۹ھ میں جنگی قیدی بن کر رسول ِ خدا کی خدمت میں پیش ہوئی، وہ ننگے سر تھی،آپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا!میرا رومال اسکے سر پر ڈال دو، حضرت بلال ؓ نے عرض کیا، حضور؟ رومال، جس کے ایک ایک دھاگہ کی عفت و پاکیزگی پر فرشتے رشک کرتے ہیں وہ ایک کافرہ کے سر پر؟ نبی ِ رحمت ﷺ نے فرمایا!بیٹی، بہر حال بیٹی ہوتی ہے دوست کی ہو یا دشمن کی۔ جس طرح بے پردگی اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں اسی طرح اوروں کی بیٹیوں کے لیے بھی گوارہ نہیں، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاتم کی بیٹی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا جاؤ! بیٹی،تیرے باپ کی نیک نامی اور انسان دوستی کے صلہ میں تم کو آزاد کرتا ہوں، بنتِ حاتم عرض خدمت ہوئی۔
مروّت نہ بینم رہائی زبند: بہ تنہا ویارانم اندر کمند
اس نے عرض کیا میں بنتِ حاتم ہوں میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ قبیلے کے لوگوں کو گرفتار چھوڑ جاؤں اورخود آزادی حاصل کر لوں، حضور! میں اپنی رہائی کے ساتھ اپنے قبیلے کے قیدیوں کی بھی رہائی کی تمنّا رکھتی ہوں۔
سرورِ کونین ﷺ مسکرائے اور ارشاد فرمایا! جاؤ، تمہیں تمہارے باپ کی سخاوت اور تمہارے قبیلے کو تمہاری انسانی مروّت کی وجہ سے پروانہ ئ آزاد ی عطا کرتا ہوں، زادِ راہ دے کر انہیں ملک ِ شام بھجوانے کا حکم صادر فرمایا۔
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پایا ں شفقت اور کردار کی حلاوت نے دل موہ لیا، قبیلہ طے کے لوگ اشکبار ہو گئے اور عرض خدمت ہوئے یا رسول اللہ!جب آپ نے دنیا کی قید سے رہائی فرما دی تو ہمیں آخرت کی گرفتاری سے بھی خلاصی کروادیجئے، اور اگلے لمحہ ہی وہ جام و حدت سے شر سار ہو گئے۔
پیغمبرِ اعظمﷺ کا یہی انقلابی کردار تھا۔ جس نے دنیا کو مسخّر کردیا، کہنے والے نے سچ کہا ہے، تلوار سر کاٹتی ہے کردار دل جیتتا ہے، تلوار کی پہنچ گلے تک اور کردار کی پہنچ دل کی گہرائی تک ہوتی ہے۔جہاں تلوار نا کام ہوتی ہے وہا ں کردار فتح کا جھنڈا گاڑتا ہے۔ٍ تیر وتلوار کی طاقت سے زمین تو چھینی جا سکتی ہے۔مگر کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ دلوں کو ہاتھ میں لینے کے لئے ضرورت ہے محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق حسنہ کی،،۔
”میں نے لقمان کی دانائی پڑھی، ارسطو کی منطق اور فلسفہ پڑھا، بو علی سینا، کی حزاقت و طبابت پڑھی، رستم و سہراب کا جائزہ لیا، لینن و کارل مارکس کے فارمولے پڑھے مشرق و مغرب کی ساری لیڈرشپ اور عرب و عجم کے تمام لیڈروں کا بغور جائزہ لیا، لیکن مجھے ایساقائد جس کی شخصیت کا ہر پہلو بے داغ اور محبوب ہو جس سے اپنے اور پرائے محبت کرنے پر مجبور ہو جائیں، ان میں سے کوئی نظر نہیں آتا سوائے عربی ﷺ۔اسلئے کہ دوسرے کسی میں اگر کوئی خوبی نظر آتی ہے تو وہ وقتی ہے، علاقائی ہے یا اسکی اپنی قوم تک تعلق رکھتی ہے اور محدود ہے“
یہ تبصرہ اور رپورٹ ہے، ایک نصرانی اخبار نویس کی جس نے دنیا بھر کے صحافیوں کو دعوتِ تحریردی تھی کہ ہر ایک اپنی پسند یدہ شخصیت پر کوئی مضمون لکھ بھیجیں جو انسانی برادری کے لئے یکساں واجب الاحترام ہو، جس کی شخصیت کا سب اعتراف اور اقرار کرتے ہوں۔
He was the only man in history who was the supremely successful on both religious and secular level
(Dr. Michale H. Hart the 100, New York, 1978)
در حقیقت سرورِ کونین رحمت للعالمینﷺ کی زندگی کا ہر پہلو،آپ کی سیرت کا ہر جز ء انقلاب آفریں پیغام اور آب ِ حیات کا درجہ رکھتا ہے اور قیامت تک کیلئے انسانیت کی فوز و فلاح کا وہ معیار بھی ہے، اور اسمیں کوئی زاویہ بربریت اور وحشت کا نظر نہیں آتا۔
آپ نے مٹی کے ذرّوں،پانی کے قطروں،اُمنڈتے بادلوں، چڑھتی گھٹاؤں، کو ندتی بجلیوں،زمین کی پستیوں اور بلندیوں،خشکیوں ا ور تریوں میں خدا کے جلوے انسانوں کو دکھائے،دشمنوں کو اپنی دلفریب تعلیم و تربیت سے اپنا جاں نثار بنایا، انسانوں میں سے مال و دولت، نسل اور رنگ کے بھید بھاؤ کو یکسر مٹایا، حسب و نسب کے بُت پاش پاش کئے، اونچ نیچ کے فرق کو نیست و نابود کردیا۔
فخر الانبیاء ختم الرسل کی ذات ِ مقدس کے جس شعبہئ زندگی کا بھی مطالعہ کیا جائے شفقت ہی شفقت، رحمت ہی رحمت نظر آتی ہے۔
رسمِ دنیا ہے اطاعت کے جواب مین شفقت،عقیدت کے جواب میں الفت، بے مروتی کے بدلے سلوک، یہ خصوصیت ہے محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔
عام طور پر جب انسان کے پاس دولت و طاقت کی فراوانی ہوتی ہے تو اس کا اخلاق گر جاتا ہے لیکن حضور اکرمؐ کو جوں جوں معاشی و سیاسی طاقت حاصل ہوتی گئی آپ کے اخلاقِ حسنہ پر مزید رنگ چڑھتا گیا۔
تاریخ ِ عالم میں کوئی مثال نہیں ملے گی جس کو گالیا ں دی گئیں ہوں اس نے تحفہ پیش کیا ہو،جس کو خاردار راستہ پر چلایا گیا ہو،اسکے عوض پھول نچھاور کیے ہوں، جس نے پتھر برسائے ہوں اسکو گلدستہ پیش کیا ہو۔
اگر وہ مثال اور نمونہ ملے گا تو و ہ سرزمینِ حجاز کے باسی،وہ ارضِ بطحا میں گشت کرتے سالارِ قوم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں ملے گا۔
کون نہیں جانتا کہ فتحِ مکّہ کے بعد صحنِ حرم میں دشمنانِ اسلام، سردارانِ قریش جمع تھے،ان میں وہ بھی تھے جس نے حضرت بلالؓ کو تپتی ریت پر گھسیٹا تھا، ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے حضرت خباب ؓکو دہکتے انگاروں پر لٹایا تھا اوران میں وہ ننگ اسنانیت بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کے جاں نثاروں کو ظلم و ستم کا تختہئ مشق بنایا تھا، اور فخر ِ موجودات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک کو دُکھی کیا تھا، سرکار دو عالم ؐ نے سب کو مخاطب ہو کر دریافت فرمایا کہ اے قریش!کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کروں؟
قریش مزاج شناس تھے،تاڑگئے،آواز میں رحمت کی بُو آتی ہے،رحمت کا سہارا لیکر بولے خیراًاخ کریم و ابن اخ کریم۔آپ سے بھلائی ہی کی توقع رکھتے ہیں، اسلئے کہ آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں، شریفوں سے نیکی کی ہی امید کی جا سکتی ہے۔ نبی رحمت ؐ نے فرمایا! گھبراؤ نہیں جاؤ! مکّہ کی ماؤں سے کہہ دو! تمہاری ممتا نہیں لوٹی جائے گی، مکّہ کے بچّوں سے کہہ دو تمہیں یتیم نہیں بنایا جائے گا، مکّہ کی بہنوں سے کہہ دو تمہارے دوپٹّے اتارے نہیں جائیں گے۔
آج جس نے گلے پر تلوار چلائی تھی اسکو گلے سے لگایا جائے گا،جس نے سینے میں خنجر گھونپا اسکو سینے سے چمٹایا جائے گا، جو پیغام موت بنکر حملہ آورتھا اسکو جامِ حیات دیا جا ئے گا۔لا تثریب علیکم الیوم اذھبواو انتم الطلقاء آج تم پرکوئی مواخذہ نہیں جاؤ! تم سب کے سب آزاد ہو پھر اعلان فرمایا۔
آج جو ابو سفیان کے گھر چلا گیا اسکوامان ہے۔ جو مسجد ِ حرام میں داخل ہو گیا اسکو امان ہے۔جس نے گھر کا دروازہ بند کر لیا اسکو امان ہے الیوم یوم المرحمۃ آج بدلہ نہیں،معافی کا دن ہے۔
وحشی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عمِ محترم حضرت امیر حمزہ ؒ کا قاتل تھا، ہندہ جو رئیس ِ کفار ابو سفیان کی بیوی تھی وہ ہندہ جو معرکہئ احد میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گا گا کر سپاہیوں کا دل بڑھاتی اور جوش دلاتی تھی اسنے نذر مان رکھی تھی کہ جب تک حمزہ کا کلیجہ چاک کر کے نہ چباؤں گی اسوقت تک چین نہ لونگی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ شہید کردئے جاتے ہیں ہندہ سینہ چاک کرتی ہے،کان،ناک کاٹ کر ہار بناتی ہے، کلیجہ چباتی ہے اور نا پاک روح کو جھوٹی تسلّی دیتی ہے۔
ان میں عکرمہ بھی تھا جو دشمنِ اسلا م ابو جہل کا فرزندتھا، اسمیں صفوان بن امیہ تھا جو مسلمانوں کا شدید ترین دشمن تھا، ہبار بن اسود جو ایک حد تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کا قاتل تھا۔ابو سفیان جو سرغنہ ئکفر و شرک تھا، یہ سب ایک باربارگاہ ِ رسالت عزت مآب میں باریاب ہوئے اور اپنے قصور کا اعتراف کیا، دفعۃً بابِ رحمت وَ ا ہوا۔ دوست و دشمن کی تمیز یکسر مفقود ہو گئی۔
آپ نے طائف کا نام سنا ہوگا۔ وہ طائف جس نے مکّہ کے عہدستم میں آپ کو پناہ نہیں دی۔بات تک نہ سننی چاہی۔ جہاں آپکی تحقیر کی گئی۔جہاں بازار والوں نے آپکی ہنسی اڑائی۔شہر کے اوباش ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور پتھروں کی بارش برسائی۔آپ لہو لہان ہو گئے۔حتٰی کے نعلین مبارکین خون سے بھر گئے۔ جب تھک کر بیٹھ جاتے تو شریر آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے جب آپ چلنے لگتے تو پھر پتھر برساتے۔پہاڑکے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جاؤ! میرے محبوب کو جس طرح ہو تسکین دو۔ فرشتہ دست بستہ عرض خدمت ہوا۔ یا رسول اللہ!اجازت ہو توان بدبختوں اور گستاخوں کو پہاڑ کے بیچ پیس دیں کہ صفحہئ ہستی پر نام و نشان تک نہ باقی رہ جائے۔
موقع تھا کہ آج او باشو ں کے شر کا دنداں شکن جواب دیا جاتا،اینٹ کا جواب پتھر نہیں چٹّانوں سے دیا جاتا۔ رحمت ِ عالم کی صفتِ رحمی ملاحظہ فرمائیے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن اس قدر تکلیف پہنچی تھی کہ نو برس بعد جب حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا؟کہ تمام عمر میں سب سے زیادہ تکلیف کا دن آپ پر کون سا آیا؟ تو آپ نے اسی طائف کا ذکر فرمایا کہ وہ شام میری زندگی کی سخت ترین شام تھی۔
عبد اللہ بن اُبی رئیس المنافقین تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی درپردہ دشمنی میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ہر موقع پر خفیہ سازشوں کا جال پھیلاتا۔حضورﷺاور مسلمانوں کی اہانت کا اعلانیہ مرتکب ہوتا، اسی پر بس نہیں! حضرت عائشہؓ پر افترا پردازی سے باز نہیں آیا، آپ ﷺ نے ہمیشہ درگزر کیا، یہاں تک کہ اسکے انتقال پر کفن کے لئے اپنا کرتا مرحمت فرمایا۔ یکتائے روزگار کی شانِ رحیمی دیکھئے۔
سخی وقت حاتم طائی کی بیٹی سفا نہ ۹ھ میں جنگی قیدی بن کر رسول ِ خدا کی خدمت میں پیش ہوئی، وہ ننگے سر تھی،آپ ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا!میرا رومال اسکے سر پر ڈال دو، حضرت بلال ؓ نے عرض کیا، حضور؟ رومال، جس کے ایک ایک دھاگہ کی عفت و پاکیزگی پر فرشتے رشک کرتے ہیں وہ ایک کافرہ کے سر پر؟ نبی ِ رحمت ﷺ نے فرمایا!بیٹی، بہر حال بیٹی ہوتی ہے دوست کی ہو یا دشمن کی۔ جس طرح بے پردگی اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں اسی طرح اوروں کی بیٹیوں کے لیے بھی گوارہ نہیں، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاتم کی بیٹی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا جاؤ! بیٹی،تیرے باپ کی نیک نامی اور انسان دوستی کے صلہ میں تم کو آزاد کرتا ہوں، بنتِ حاتم عرض خدمت ہوئی۔
اس نے عرض کیا میں بنتِ حاتم ہوں میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ قبیلے کے لوگوں کو گرفتار چھوڑ جاؤں اورخود آزادی حاصل کر لوں، حضور! میں اپنی رہائی کے ساتھ اپنے قبیلے کے قیدیوں کی بھی رہائی کی تمنّا رکھتی ہوں۔
سرورِ کونین ﷺ مسکرائے اور ارشاد فرمایا! جاؤ، تمہیں تمہارے باپ کی سخاوت اور تمہارے قبیلے کو تمہاری انسانی مروّت کی وجہ سے پروانہ ئ آزاد ی عطا کرتا ہوں، زادِ راہ دے کر انہیں ملک ِ شام بھجوانے کا حکم صادر فرمایا۔
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پایا ں شفقت اور کردار کی حلاوت نے دل موہ لیا، قبیلہ طے کے لوگ اشکبار ہو گئے اور عرض خدمت ہوئے یا رسول اللہ!جب آپ نے دنیا کی قید سے رہائی فرما دی تو ہمیں آخرت کی گرفتاری سے بھی خلاصی کروادیجئے، اور اگلے لمحہ ہی وہ جام و حدت سے شر سار ہو گئے۔
پیغمبرِ اعظمﷺ کا یہی انقلابی کردار تھا۔ جس نے دنیا کو مسخّر کردیا، کہنے والے نے سچ کہا ہے، تلوار سر کاٹتی ہے کردار دل جیتتا ہے، تلوار کی پہنچ گلے تک اور کردار کی پہنچ دل کی گہرائی تک ہوتی ہے۔جہاں تلوار نا کام ہوتی ہے وہا ں کردار فتح کا جھنڈا گاڑتا ہے۔ٍ تیر وتلوار کی طاقت سے زمین تو چھینی جا سکتی ہے۔مگر کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ دلوں کو ہاتھ میں لینے کے لئے ضرورت ہے محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق حسنہ کی،،۔