ماہنامہ الفاران

ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۳

عشق رسول کی تپش میں جلی، پر بہار شخصیت حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ۔

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب المظاہری، ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش وسرپرست ماہنامہ الفاران


اداریہ
آسماں انکی لحد پر شبنم افشانی کرے
سیف الاسلام،مرد حق آگاہ،پاسبان ختم نبو ت،جرأت و حمیت اورگوں نا گوں صفات حمیدہ کے مالک حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی ؒ کی رحلت سے نہ صرف ان کی فیملی بلکہ عالم اسلام سوگوار ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں جرأت و حمیت، مظلوموں کی حمایت،انسانیت نوازی، اظہار حق کی قوت، خاص طور پر ختم الرسل کی ناموس کی حفاظت اور قادیانیت جیسی باطل تحریک کی سر کوبی کے لئے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا،اسلئے دنیا ان سے عقیدت و محبت رکھتی ہے اور سر چشمہئ نبوت کے ساقی اور ختم الرسل کے سر چشمہئ فیض سے انہیں مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی جنہیں ہر دین کے ماننے والے عقیدت و محبت اور ہر طبقہئ فکر ان کے جاہ و جلال سے مانوس اور مرعوب تھا۔
ہندوستان کے کسی بھی کونے میں ناموس رسول ﷺ پر ادنیٰ سی چھینٹا کشی کرنے کی جب ان تک خبر موصول ہوتی وہ شمشیر برہنہ ہو جاتے اور وہاں پہونچ کر ایسے باطل افکار کی سر کوبی اور اس کودلائل و براہین سے مٹانے کی بھر پور کوشش کرتے،اس میں ان کے ساتھ چلنے والوں کی جم غفیر اور عوام الناس کی بڑی تعداد موجود رہتی۔حضرت والا کی اس سلسلہ میں جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کی تگ و دوشاہد ہے۔
ختم نبوت کی تحریک کا جو سلسلہ شروع ہوا اور ان کے دور میں جو سلسلہ جاری تھا اور انہیں اس سلسلہ میں جو تگ و دو اور ناموس رسالت اور ختم نبوت کی تحریک کی جو خدمت کی سعادت حاصل ہوئی کسی ادارہ اور تنظیم کو میسر نہیں آئی۔
وہ اس درد و تڑپ کو لیکر گاؤں گاؤں،قصبہ قصبہ اورشہر وں میں دیوا نہ وار پھرتے اور ختم الرسل ﷺکی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے جرأت و ہمت،اور قرآن و احادیث سے لوگوں کے عقیدہئ ملعونہ کو بدل دیتے، جس علاقہ میں قادیا نی ملعون کا ناپاک پاؤں پڑتاان کی تشریف آوری سے وہ خطہ اور علاقہ ہمیشہ کے لئے پاک ہو جاتا، جب کبھی انہیں ہندوستان ؎کے کسی صوبہ اور شہر میں حکومت کی جانب سے قادیانیوں کو جلسہ کی جگہ فراہم کر نے کی اجازت کا علم ہوتا وہ حکومت پر شمشیر برہنی ہو جاتے۔اور سرکار پر اس طرح گرجتے کہ حکومت ہوش باختہ ہو کر قادیانیوں کی حوصلہ افزائی سے باز آجاتی اور حضرت مولانا کی با رعب دھمکیوں سے سرکار فیصلے واپس لینے پر مجبور ہوجاتی، یہ در اصل عشق رسول ﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت اور ان کے خلوص کی تاثیر ہی تھی۔
حضرت مولانا ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام عالم اسلام میں اس مقبول عمل کی وجہ سے متعارف تھے۔
در اصل آپ کا خاندان علمی و تاریخی خاندان ہے، جسکے ذریعہ غیر منقسم پنجاب میں اسلام اور اسلامیت کا تعارف ہوا، سیکڑوں مقبوضہ مساجد واگزار ہوئیں اور ان کے ہاتھوں اس علاقہ میں اسلام کا پرچم بلند ہوا،حوصلہ اور ہمت سے مسلمانوں کو جینے کی سعادت ملی، آپ کا خاندان اور آپکی ذات تحریک ختم نبوت کے مضبوط اور مستحکم ستون تھے۔
پنجاب کے شہر لدھیانہ میں تاریخ۷جمادی اولیٰ ۲۳۴۱؁ ھ مطابق ۱۱/اپریل ۱۱۰۲؁ ء کو ختم نبوت کی سو سالہ تقریب حضرت مولانا حبیب الرحمن ؒ کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی جس میں بندہ کو بھی شرکت کی سعادت میسر آئی تھی اور ان کے حکم پر خطاب کا موقع ملا تھا، اس جلسہ میں تا حد نظر ٹھاٹھیں مارتا مجمع تھا،جس میں ہر طبقہئ فکر اور ہر مسلک و مشرب کے جید علماء اور ہر دین و مذہب کی عوام موجودتھی،اللہ رب العزت نے ان کی سعی اور انکے احباب کی محنتوں کو قبولیت سے نوازا تھا کہ یہ جلسہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ساز اور مثالی تھا جو دنیا کے سامنے پیش کر گیا۔
بندے کے حصہ میں یہ سعادت بارہا نصیب ہوئی کہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہورتا رہا اور ان کی محبت و شفقت سے متمتع ہونا نصیب نے یاوری کی اور حضرت والا ؒ بھی کئی بار مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا لاو لشکر کے ساتھ تشریف لاتے رہے،پہلی بار 8/ مئی 2008؁ء اپنے احباب کے جھرمٹ سمیت بعد نماز عشاء تشریف لائے،یہ میری پہلی ملاقات تھی،گیٹ میں داخل ہوتے ہی سائرن کی آوازوں سے مدسہ کے بام و در میں کہرام سا مچ گیا اور ہم کچھ خائف سے ہو گئے،آگے بڑھ کر دیکھا کہ سفید پوشوں کی ایک قطار ہے،اس جلو میں ایک نورانی شخصیت نے اپنا تعارف حبیب الرحمن لدھیانوی سے کرایاکہ ہمیں یہاں ما حضر کھانا کھانا ہے ہم ان کی بے تکلف ادا سے بڑے محظوظ ہوئے اور رجسٹر معائنہ پریو ں اپنا اظہار خیال کیا”مدرسہ کے روح رواں حضرت مولانا فاران صاحب اور اساتذہئ کرام و طلبہئ کرام نے جس گرم جوشی سے استقبال کیا وہ نا قابل فراموش ہے “۔
مشیت ایزدی کہ اللہ نے اپنے اس محبوب اور سرتاج انبیاء حضرت محمد ﷺ کے عاشق کو مختصر علالت کے بعد مورخہ ۲/صفر المظفر1434؁ھ مطابق 01/ستمبر 2021؁ء کو اپنا قرب نصیب فرمایا اور وہ اپنے والد محترم کے جوار میں جامع مسجد فیلڈ گنج لدھیانہ میں ہمیشہ کے لئے رو پوش ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
باغبان گلشن ہستی کا یہ انداز ہے۔ توڑ لیتا ہے اسی گل کو کہ جس پر ناز ہے۔
حضرت مولانا مرحوم کے لئے دیگر خوش بختیوں کے ساتھ یہ خوش نصیبی بھی کم نہیں کہ اپنے پسمانگان میں صدقہ ئ جاریہ، اپنی کی تحریک کے والی اور سچے جانشین کے طور پر فرزند عزیز،حوصلہ اور ہمت کی دولت سے معمورعزیز القدر حضرت مولانا محمد عثمان صاحب سلمہ اللہ الرحمن اپنی تمام تر جوانی کی جولانیوں اور والدمحترم جیسی جرأت و حمیت اور ولولہئ عشق نبوت سے معمور شخصیت کی تاج پوشی ہوئی،جسکے وہ ہمہ جہت پہلوؤں سے معمور ہونے کی وجہ سے حق دار ہیں۔ اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانویؒ کی فکروں اور ان کے خیالات کا صحیح ترجمان اور سدا تاج پوشی کی عزت و حرمت کا وہ خیال رکھیں گے۔رب ذوالجلال انکی ہر چہار جانب سے حفاظت اور نصرت فرماتے رہیں گے۔ان شاء اللہ العزیز۔
اس غمناک گھڑی میں ہندی مسلمان ہی کی نہیں بلکہ عالم اسلام تعزیت کے حق دار ہیں اور ان کے جانشین اسی قدر ہمدردی،خیر خواہی،رہبری اور نصرت کے مستحق ہیں کہ یہ معاملہ سرکار دو عالم ﷺ کی تحریک ختم نبوت کے خادم کا ہے۔
اس موقع پر اس کا اظہار بھی موضوع کے مناسب ہے کہ جس سے عام طور پر غفلت بری جاتی ہے کہ حضرت رسول ﷺ کا ارشاد:جس کو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نقل کیا ہے اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ (رواہ مسلم، حدیث نمبر ۴۸۰۳،کتاب الوصیت) ترجمہ: انسان جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں۔۱۔صدقہئ جاریہ، ۲۔ علم نافع کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں، ۳۔نیک اولاد جو والدین کے لئے دعائے خیر کریں۔ان میں ولد صالح جو ان کے لئے دعا ئے خیر کرے بجا طور پرعزیز گرامی حضرت مولانامحمد عثمان سلمہ اللہ تعالی ان صفات سے بھی متصف ہیں، حدیث بالا سے صافٖ ظاہر ہے کہ والدین کی زندگی میں دعائیں اولاد کو لگتی ہیں اور مرنے کے بعد والدین کو اولاد کی دعا لگتی ہے۔اس روایت کی روشنی میں جنازہ کی نماز ایک دعاء ہے جس کے مستحق صاحب زادہئ محترم مولانا محمدعثمان سلمہ اللہ الرحمن تھے۔ترجیحی بنیاد پر امت کو دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ مستحق ولی کی موجودگی میں کوئی دوسرا نماز جنازہ نہ پڑھائے جس میں امت عموماََ آج گرفتار ہے۔
فقہ کی مشہور کتاب ”ہدایہ“ جلد۱/ صفحہ نمبر ۰۸۱ کی کتاب الجنائز۔ فصل فی الصلوٰۃ علی المیّت میں درج ہے۔واولیٰ الناس بالصلوۃ علی المیت السلطان ان حضر لان فی التقدم علیہ ازدراء بہ فان لم یحضر فالقاضی لانہ صاحب ولایۃ فان لم یحضر(فیستحب تقدیم) امام الحیِِّ، لانہ رضیہ فی حال حیاتہ،قال ثم الولی۔ّ میت پرنماز پڑھنے کے واسطے سب سے اعلیٰ سلطان وقت ہے اگر وہ حاضر نہ ہو تو قاضی وقت، اگر یہ بھی حاضر نہ ہو تو محلہ کے امام کی تقدیم مستحب ہے۔ اس کے بعد میت کا ولی بہتر ہے، امام ابو یوسف ؒ کی رائے ہے کہ ہر حال میں ولی ہی مستحق ہے،یہی رائے امام شافعی ؒ کی ہے،نیز امام اعظم سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے، اس لئے اگرمیت کے ولی میں کوئی مستحق ہو تو اس جنازہ میں کسی دوسرے کو نہیں بڑھنا اوربڑھاناچاہئے۔
قائد ملت،پاسبان دربار رسالت کے امین حضرت مولاناحبیب الرحمن ثانی لدھیانوی ؒ کی سدا کے لئے بچھڑنے کی دلدوز گھڑی میں دعاؤں کے ساتھ اس صاحب جاہ و حشم اور ناموس رسالت مآب ﷺکی حفاظت کر نے والی جلیل القدر فیملی جسکے حسب و نسب میں تحفظ عزت اسلام اور ناموس رسالت کا خون دوڑرہا ہے، میں اپنی، اپنی فیملی اور اپنے تمام اداروں کی طرف سے فرداََ فرداََ سبھوں کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں اور جہاں جس قدر بھی خیر خواہی کی ضرورت ہو سایہ کی طرح ساتھ چلنے کا عہد کرتا ہوں۔
شریک غم
کبیر الدین فاران المظاہری
ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی