آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالمیرے ایک دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ قربانی ان پر واجب نہیں ہے، مگر ان کی بیوی پر واجب ہے، اب وہ اپنی بیوی کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟
انہوں نے خود اپنی نیت سے قربانی کا حصہ ڈالا ہوا ہے،تو کیا وہ اس نیت کو بدل کر بیوی کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟
انہوں نے خود اپنی نیت سے قربانی کا حصہ ڈالا ہوا ہے،تو کیا وہ اس نیت کو بدل کر بیوی کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟
جواب(۱) آپ کے دوست کے لیے خود پر قربانی واجب نہ ہونے کے باوجود اپنی بیوی کی طرف سے ان کی اجازت سے قربانی کرنا جائز ہے۔
(۲) اگر آپ کے دوست نے خود پر قربانی واجب نہ ہونے کے باوجود اجتماعی قربانی میں حصہ ڈال لیا ہے تو اب اس حصہ کی قربانی کرنا ان پر لازم ہوچکا ہے، لہٰذا اب اس حصہ کی قربانی بیوی کی طرف سے کرنا جائز نہیں ہے۔ بیوی کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے دوسرا حصہ یا جانور لینا ضروری ہے، خواہ اس کی ادائیگی آپ کے دوست کریں یا ان کی بیوی ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و لو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه و أولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لاتجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعاً؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحماً فصار الكل لحماً."
(كتاب الاضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير، وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه، ٥ / ٣٠٢، ط: دار الفكر)
حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 321):
" قوله: (شراها لها) فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب لأن النية لم تقارن الشراء فلاتعتبر، بدائع. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء و هذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، و هو النذر بالتضحية عرفًا كما في البدائع."
فقط واللہ اعلم
(۲) اگر آپ کے دوست نے خود پر قربانی واجب نہ ہونے کے باوجود اجتماعی قربانی میں حصہ ڈال لیا ہے تو اب اس حصہ کی قربانی کرنا ان پر لازم ہوچکا ہے، لہٰذا اب اس حصہ کی قربانی بیوی کی طرف سے کرنا جائز نہیں ہے۔ بیوی کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے دوسرا حصہ یا جانور لینا ضروری ہے، خواہ اس کی ادائیگی آپ کے دوست کریں یا ان کی بیوی ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و لو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه و أولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لاتجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعاً؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحماً فصار الكل لحماً."
(كتاب الاضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير، وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه، ٥ / ٣٠٢، ط: دار الفكر)
حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 321):
" قوله: (شراها لها) فلو كانت في ملكه فنوى أن يضحي بها أو اشتراها ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك لا يجب لأن النية لم تقارن الشراء فلاتعتبر، بدائع. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء و هذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، و هو النذر بالتضحية عرفًا كما في البدائع."
فقط واللہ اعلم