آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالہمارے یہاں آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ جس کے نام سے قربانی ہوتی ہے ، وہ اپنے نام کی قربانی کے متصلاً بعد اپنے سر کے بال منڈواتاہے اور وہ بھی ثواب کی نیت سے۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جوابحدیث شریف میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘ ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔
اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔
یہ ایک مستحب عمل ہے اور باعثِ ثواب ہے، تاہم ایسے شخص کے لیے بال کاٹنا ممنوع نہیں ہے، لہذااگر کسی نے بال یا ناخن قربانی سے پہلے کاٹ لیے تو گناہ گار نہ ہوگا،اور نہ ہی اس عمل پر کوئی کفارہ لازم ہے۔البتہ مستحب عمل کے ثواب سے محروم رہ جائے گا۔
نیز بعض اکابر فرماتے ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے افراد کے لیے بھی اس پر عمل کرنے کی اجازت ہے کہ وہ بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اصل حکم یعنی قربانی کرنے والے کا یکم ذوالحجہ کے بعد ناخن اور بال کاٹنے سے اپنے آپ کو روکے رکھنا ثواب کی نیت سے ،یہ عمل مستحب ہے اور حدیث سے ثابت ہے، اس پر عمل کرنے والا اجر کا مستحق ہوگا۔لیکن اس میں یہ تعیین نہیں کہ قربانی کے متصلاً بعد سر منڈوائے ، بلکہ قربانی کے بعد جب سہولت ہو بال ، ناخن کاٹ سکتا ہے۔
لیکن جو صورت آپ نے لکھی ہے قربانی کرنے والا قربانی کے متصل بعد سر منڈواتا ہے، اور اس عمل کو باعثِ ثواب سمجھتے ہیں، اس طرح کرنا شریعت میں ثابت نہیں، نیز قربانی کے متصل بعد سر منڈوانے کو لازم سمجھنا بھی درست نہیں، لہذا جہاں یہ رواج ہو اسے ترک کرنا لازم ہے۔
فقط واللہ اعلم
اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔
یہ ایک مستحب عمل ہے اور باعثِ ثواب ہے، تاہم ایسے شخص کے لیے بال کاٹنا ممنوع نہیں ہے، لہذااگر کسی نے بال یا ناخن قربانی سے پہلے کاٹ لیے تو گناہ گار نہ ہوگا،اور نہ ہی اس عمل پر کوئی کفارہ لازم ہے۔البتہ مستحب عمل کے ثواب سے محروم رہ جائے گا۔
نیز بعض اکابر فرماتے ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے افراد کے لیے بھی اس پر عمل کرنے کی اجازت ہے کہ وہ بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اصل حکم یعنی قربانی کرنے والے کا یکم ذوالحجہ کے بعد ناخن اور بال کاٹنے سے اپنے آپ کو روکے رکھنا ثواب کی نیت سے ،یہ عمل مستحب ہے اور حدیث سے ثابت ہے، اس پر عمل کرنے والا اجر کا مستحق ہوگا۔لیکن اس میں یہ تعیین نہیں کہ قربانی کے متصلاً بعد سر منڈوائے ، بلکہ قربانی کے بعد جب سہولت ہو بال ، ناخن کاٹ سکتا ہے۔
لیکن جو صورت آپ نے لکھی ہے قربانی کرنے والا قربانی کے متصل بعد سر منڈواتا ہے، اور اس عمل کو باعثِ ثواب سمجھتے ہیں، اس طرح کرنا شریعت میں ثابت نہیں، نیز قربانی کے متصل بعد سر منڈوانے کو لازم سمجھنا بھی درست نہیں، لہذا جہاں یہ رواج ہو اسے ترک کرنا لازم ہے۔
فقط واللہ اعلم