آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالمیری سالی کے پاس سونا تھا، اس کے شوہر نے وہ فروخت کرکے قربانی کرلی، اور کہا کہ تم پر قربانی واجب ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ ایسے تو اس کا سونا ختم ہوجائے گا۔
جوابقربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض اور اس وقت تک کے واجب الادا اخراجات کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان یا ضرورت و استعمال سےزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے۔
ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔
اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔
لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تفصیل کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے کہ مذکورہ خاتون کے پاس موجود سونا اگر ساڑھے سات تولہ سونے سے زیادہ ہے یا سونے کے ساتھ کچھ نقد رقم یا چاندی یا استعمال سے زائد سامان بھی موجود ہے اور مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہے اور اس پر اتنا قرض نہیں ہے کہ اسے منہا کرنے کے بعد وہ صاحبِ نصاب نہ رہے، تو اس خاتون پر قربانی واجب تھی، اور جس شخص پر قربانی واجب ہو، اس کے لیے ایامِ قربانی میں قربانی کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، پس اگر اس کے پاس نقدی موجود نہ ہو تو کسی سے قرض لے کر یا موجود زیورات و دیگر سامان میں سے کچھ فروخت کرکے قربانی کرنا ضروری ہوتا ہے، تاہم وجوب کی ادائیگی کے لیے بڑا جانور مکمل یا بکرا کرنا ضروری نہیں، اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر قربانی کرلینا کافی ہوتا ہے، ایامِ قربانی میں قربانی نہ کرنے کی صورت میں ایک بکرے یا حصہ کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اس خاتون کو چاہیے کہ قربانی کے حصہ کے لیے ہر سال رقم جمع کرتی رہے، تاکہ سونا فروخت نہ کرنا پڑے۔
اور اگر مذکورہ خاتون کے پاس موجود سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہے، اور اس کے پاس ضرورت سے زائد نقدی یا چاندی یا مالِ تجارت یا استعمال سے زائد سامان کچھ بھی نہیں ہے، (یعنی جو سامان ہے وہ استعمال میں ہے) تو اس خاتون پر قربانی واجب نہیں تھی، اس صورت میں اس عورت کی اجازت کے بغیر اس کا سونا فروخت کرنا اور اس سے قربانی کرنا درست نہیں ہوگا۔
فقط واللہ اعلم
قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے۔
ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔
اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔
لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تفصیل کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے کہ مذکورہ خاتون کے پاس موجود سونا اگر ساڑھے سات تولہ سونے سے زیادہ ہے یا سونے کے ساتھ کچھ نقد رقم یا چاندی یا استعمال سے زائد سامان بھی موجود ہے اور مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہے اور اس پر اتنا قرض نہیں ہے کہ اسے منہا کرنے کے بعد وہ صاحبِ نصاب نہ رہے، تو اس خاتون پر قربانی واجب تھی، اور جس شخص پر قربانی واجب ہو، اس کے لیے ایامِ قربانی میں قربانی کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، پس اگر اس کے پاس نقدی موجود نہ ہو تو کسی سے قرض لے کر یا موجود زیورات و دیگر سامان میں سے کچھ فروخت کرکے قربانی کرنا ضروری ہوتا ہے، تاہم وجوب کی ادائیگی کے لیے بڑا جانور مکمل یا بکرا کرنا ضروری نہیں، اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر قربانی کرلینا کافی ہوتا ہے، ایامِ قربانی میں قربانی نہ کرنے کی صورت میں ایک بکرے یا حصہ کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اس خاتون کو چاہیے کہ قربانی کے حصہ کے لیے ہر سال رقم جمع کرتی رہے، تاکہ سونا فروخت نہ کرنا پڑے۔
اور اگر مذکورہ خاتون کے پاس موجود سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہے، اور اس کے پاس ضرورت سے زائد نقدی یا چاندی یا مالِ تجارت یا استعمال سے زائد سامان کچھ بھی نہیں ہے، (یعنی جو سامان ہے وہ استعمال میں ہے) تو اس خاتون پر قربانی واجب نہیں تھی، اس صورت میں اس عورت کی اجازت کے بغیر اس کا سونا فروخت کرنا اور اس سے قربانی کرنا درست نہیں ہوگا۔
فقط واللہ اعلم