آپ کے مسائل اور انکا حل

سوالعام طور پر کتب فقہ میں ذبح سے پہلے قربانی کے جانور سے نفع حاصل کرنے(دودھ یا رکوب وغیرہ کی صورت میں)کو مکروہ لکھا ہے ،لیکن ہندیہ میں محیط السرخسی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ‌"فإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي" (ج 301/5 ط:ماجدیہ)
پوچھنا یہ ہے کہ نفع اٹھانے میں کراہت اپنے اطلاق پر ہے یاہندیہ کی عبارت سے اس کو مقید کیا جائے گا؟نیز اگر کراہت اپنے اطلاق پر ہو تو ہندیہ کی عبارت کا کیا محمل بنے گا؟تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
جوابصورتِ مسئولہ میں عام طور پر کتب فقہ نے جو ذبح سے پہلے قربانی کے جانور سے نفع(دودھ وغیرہ کی صورت میں)کو مکروہ لکھا ہے یہ کراہت اپنے اطلاق پر نہیں ہے، بلکہ اس کو فتاوی ہندیہ کی عبارت کے ساتھ مقید کیا جائےگا یعنی اگر قربانی کے جانور کو چارہ خرید کر کھلا رہا ہو تو اس کا دودھ وغیرہ استعمال کر سکتا ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اس صورت میں بھی دودھ وغیرہ استعمال نہ کرے،اس طرح ہندیہ اور دوسرے فتاوی کی عبارات میں تطبیق ہو جائے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثهافإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي۔"
( کتاب الاضحیۃ ،الفصل السادس فی بیان ما یستحب فی الاضحیۃ والانتفاع بھا،ج 301/5ط:دارالفکر)
المحيط البرهانی میں ہے:
"ويتصدق بلحمها؛ قال البقالي في «كتابه» : وما أصاب من لبنها تصدق بمثله أو قيمته، وكذا الأرواث إلا أن يعلفها بقدرها۔"
(كتاب الاضحیۃ،فصل فی الانتفاع ج95/6ط:دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی