آپ کے مسائل اور انکا حل

سوالمیں یہاں سعودی عرب میں ہوں۔ یہاں بہت سے لوگ وضو کرتے وقت پیر نہیں دھلتے اور جو موزہ پہنے رہتے ہیں اسی کے اوپر مسح کر لیتے ہیں یہ موزہ کپڑے کا ہوتا ہے نہ کہ چمڑے کا۔ اور بہت سے ہوگ جوتے کے اوپر سے ہی مسح کر لیتے ہیں۔ اس کے بارے میں دریاقت کیا تو پتہ چلا کہ اگر با وضو ہو کر موزے اور جوتے پہن لیتے ہیں اور دوبارہ وضو کی ضرورت پڑی تو موزے کے اوپر سے مسح کر لینا کافی ہوگا پیر کا دھلنا ضروری نہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ بہ عمل خارجی لوگوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیا اس طرح وضو درست ہوگا یا نہیں؟ با تفصیل با سند جواب ارسال کریں رہنماء ہوگی۔جزاکم اللہ خیرالجزا
جوابامت کے تمام مستند ومعتبر فقہاء ومجتہدین کرام اس پر متفق ہیں کہ کپڑے کے وہ باریک موزے جن سے پانی چھن جاتا ہو یا وہ کسی چیز سے باندھے بغیر محض اپنی ثخانت وموٹائی کی وجہ سے پنڈلی پر کھڑے نہ رہ سکتے ہوں یا انھیںپہن کر میل دو میل مسلسل چلنا ممکن نہ ہو ان پر مسح جائز نہیں ہے،
بدائع الصناع (۱:۸۳، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: وأما المسح علی الجوربین فإن کانا رقیقین یشفان الماء لا یجوز المسح علیہا بالإجماع اھ، البحر الرائق (۱:۳۱۸ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میںہے: وفی المجتبی: لا یجوز المسح علی الجورب الرقیق من غزل أو شعر بلا خلاف اھ کیونکہ قرآن کریم میں پیروں کا دھونا لازم قرار دیا گیا ہے مگر مسح علی الخفین کے سلسلہ میںچوںکہ احادیث معنی متواتر ہیں اس لیے علمائے امت نے بالاجماع قرآن کریم کے حکم کو پیروں میں خفین نہ ہونے کے ساتھ مقید کیا ہے اورخفین کی صورت میں مسح کی اجازت دی ہے بشرطیکہ خفین طہارت پر پہنے گئے ہوں، اگر مسح علی الخفین کے سلسلہ میں یہ متواتر روایات نہ ہوتیں، صرف اخبار آحاد ہوتیں تو ہرگز کسی صورت میں بھی مسح علی الخفین کی اجازت نہ ہوتی، اور خف عربی میں صرف چمڑے کے موزے کو کہتے ہیں، کپڑے کے موزے پر خف کا اطلاق نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے کپڑے کے عام موزوں پر مسح کی کی اجازت نہ ہوگی، البتہ کپڑے کے موزے خوب موٹے ہوں جن کی فقہائے کرام نے کچھ شرطیں ذکر کی ہیں تو بعض فقہاء کے نزدیک ان پر مسح جائز ہے لیکن ہمارے زمانہ میں آج کل جس قسم کے اونی، سوتی یا نائیلون کے موزے رائج ہیں اور عام طور پر لوگ انھیںپہنتے ہیں، وہ باریک ہوتے ہیں اور ان پر فقہائے کرام کی ذکر کردہ شرائط نہیں پائی جاتی ہیں؛ لہٰذا ایسے موزوں پر مستند ومعتبر علما میں سے کسی کے نزدیک بھی مسح جائز نہ ہوگا اور اگر کوئی ایسے موزوں پر مسح کرے گا تو اس کا وضو نہ ہوگا اور جب وضو نہ ہوگا تو نماز بھی ہوگی۔ اور بعض لوگ جو جوتوں پر مسح کرتے ہیں تو یہ کسی بھی امام کے مذہب میں جائز نہیںہے، معارف السنن (۱:۳۴۷ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) میں ہے: ’’لم یذہب أحد من الأئمۃ إلی جواز المسح علی النعلین‘‘ اھ اور ایک روایت میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتوں پر مسح کرنا ثابت ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ پہلے سے باوضو تھے اور نئی نماز کے لیے تازہ وضو فرمایا تھا چناں چہ صحیح ابن خزیمہ (کتاب الوضوء، باب ذکر الدلیل علی أن مسح النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی النعلین کان في وضوء متطوع بہ لا في وضوء واجب علیہ من حدیث یوجب الوضوء، ۱۰۰۰۱ مطبوعہ الکتب الاسلامی) میں ہے: ’’عن علي أنہ دعا بکوز من ماء ثم توضأ وضوءاً خفیفا ثم مسح علی نعلیہ ثم قال: ہکذا وضوء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للطاہر ما لم یحدث‘‘ اھ مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے فتاوی عثمانی (۱؍۳۶۸- ۳۷۹) دیکھیں، اس میں ان روایات پر بھی تفصیلی کلام ہے جن سے بعض حضرات علی الاطلاق ہرقسم کے موزوں پر مسح کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی