آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالنکاح میں لڑکی کی طرف سے ایک گواہ شیعہ ہے اور دوسرا سنی، جب کہ لڑکی کی طرف سے وکیل بھی سنی ہے،کیا یہ نکاح درست ہوگا؟
جوابواضح رہے کہ جو شیعہ قرآنِ مجید میں تحریف، یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتا ہو، یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتا ہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور کفریہ عقیدہ رکھتا ہو تو ایسا شخص اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایسے شخص کو مسلمان کے نکاح میں گواہ بنانا درست نہیں ہے۔
اس لیے کہ مسلمان کا نکاح صحیح ہونے کے لیے دو مسلمان، عاقل، بالغ اور آزاد مردوں یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، غیر مسلم گواہوں کی موجودگی میں مسلمان کا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
لہٰذا اگر مذکورہ بالا عقائد کے حامل کسی شخص کو نکاح کا گواہ بنایا (اور مجلسِ نکاح میں اس کے علاوہ کوئی سنی گواہ موجود نہیں تھا) تو نکاح منعقد نہیں ہوگا، چاہے وہ گواہ لڑکی کی طرف سے ہو یا لڑکے کی طرف سے۔
البتہ اگر مذکورہ شخص نکاح کا گواہ نہیں ہے، بلکہ لڑکی کی توکیل (وکیل بنانے) پر گواہ ہے اور نکاح کے گواہ الگ ہیں اور وہ مسلمان ہیں یا اس شخص کے علاوہ افراد بھی مجلسِ نکاح میں موجود تھے اور اعلانیہ نکاح ہوا ہے تو نکاح منعقد ہوجائے گا، البتہ اس صورت میں بھی کسی فاسد العقیدہ شخص کو نکاح میں گواہ مقرر نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ شریعت میں فاسق شخص کے اعزاز سے منع کیا گیا ہے، اور نکاح نامے میں گواہ مقرر کرنا ایک نوع کا اعزاز ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:3، ص:46، ط:دار الفكر-بيروت):
’’و بهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي: تنبيه الولاة والحكام على أحكام شاتم خير الأنام أو أحد أصحابه الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام.‘‘
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:253، ط:دار الكتب العلمية):
’’و أما صفات الشاهد الذي ينعقد به النكاح ... و منها: الإسلام في نكاح المسلم المسلمة؛ فلاينعقد نكاح المسلم المسلمة بشهادة الكفار؛ لأن الكافر ليس من أهل الولاية على المسلم، قال الله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141]، و كذا لايملك الكافر قبول نكاح المسلم و لو قضى قاض بشهادته على المسلم ينقض قضاؤه.‘‘
فقط و الله أعلم
اس لیے کہ مسلمان کا نکاح صحیح ہونے کے لیے دو مسلمان، عاقل، بالغ اور آزاد مردوں یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، غیر مسلم گواہوں کی موجودگی میں مسلمان کا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
لہٰذا اگر مذکورہ بالا عقائد کے حامل کسی شخص کو نکاح کا گواہ بنایا (اور مجلسِ نکاح میں اس کے علاوہ کوئی سنی گواہ موجود نہیں تھا) تو نکاح منعقد نہیں ہوگا، چاہے وہ گواہ لڑکی کی طرف سے ہو یا لڑکے کی طرف سے۔
البتہ اگر مذکورہ شخص نکاح کا گواہ نہیں ہے، بلکہ لڑکی کی توکیل (وکیل بنانے) پر گواہ ہے اور نکاح کے گواہ الگ ہیں اور وہ مسلمان ہیں یا اس شخص کے علاوہ افراد بھی مجلسِ نکاح میں موجود تھے اور اعلانیہ نکاح ہوا ہے تو نکاح منعقد ہوجائے گا، البتہ اس صورت میں بھی کسی فاسد العقیدہ شخص کو نکاح میں گواہ مقرر نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ شریعت میں فاسق شخص کے اعزاز سے منع کیا گیا ہے، اور نکاح نامے میں گواہ مقرر کرنا ایک نوع کا اعزاز ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:3، ص:46، ط:دار الفكر-بيروت):
’’و بهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي: تنبيه الولاة والحكام على أحكام شاتم خير الأنام أو أحد أصحابه الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام.‘‘
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:253، ط:دار الكتب العلمية):
’’و أما صفات الشاهد الذي ينعقد به النكاح ... و منها: الإسلام في نكاح المسلم المسلمة؛ فلاينعقد نكاح المسلم المسلمة بشهادة الكفار؛ لأن الكافر ليس من أهل الولاية على المسلم، قال الله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141]، و كذا لايملك الكافر قبول نكاح المسلم و لو قضى قاض بشهادته على المسلم ينقض قضاؤه.‘‘
فقط و الله أعلم