آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالزید نے اپنی بیٹی کا نکاح پیدا ہونے کے وقت یا تین مہینے کے بعد کسی آدمی کے ساتھ کردیا تھا، کیا نکاح ہوگیا؟ کیا خیارِ بلوغ کا اعتبار ہے یا نہیں؟
جوابصورتِ مسئولہ میں اگر زید نے دو گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کا نکاح کیا تھا تو نکاح درست ہے، اور بیٹی کو خیارِ بلوغ حاصل نہیں ہے، یعنی بالغ ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کرسکتی۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:3، ص:66، ط: دار الفكر-بيروت):
’’(و لزم النكاح و لو بغبن فاحش) بنقص مهرها و زيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أباً أو جدًا) و كذا المولى و ابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانةً و فسقًا (و إن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، و كذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة، بحر.‘‘
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
دادا کے کیے ہوئے نکاح میں خیارِ بلوغ حاصل نہیں
فقط واللہ اعلم
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:3، ص:66، ط: دار الفكر-بيروت):
’’(و لزم النكاح و لو بغبن فاحش) بنقص مهرها و زيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أباً أو جدًا) و كذا المولى و ابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانةً و فسقًا (و إن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، و كذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة، بحر.‘‘
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
دادا کے کیے ہوئے نکاح میں خیارِ بلوغ حاصل نہیں
فقط واللہ اعلم