آپ کے مسائل اور انکا حل
سوال چند عورتیں اپنے محرم کے ساتھ حج کرنے جارہی ہیں، ایک عورت ان کے ساتھ حج کرنے جانا چاہتی ہے تو اس کی اجازت ہے یا نہیں؟
جوابواضح رہے کہ عورت کے حج پر جانے کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ مکہ مکرمہ سے مسافتِ سفر کی مقدار دور ہو تو اس کے ساتھ شوہر یا کوئی دوسرا محرم ہو۔ محرم کے بغیر سفر کرنا عورت کے لیے ناجائز اور حرام ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں جانا جائز نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ اگر وہ مال دار ہے اور اس کا شوہر یا کوئی محرم نہیں ہے یا محرم ہے مگر محرم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی تو اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ انتظار کرتی رہے، تاآں کہ محرم کا بندوبست ہوجائے یا محرم کے اخراجات کا بندوبست ہوجائے۔ اگر زندگی بھر محرم کا بندوبست نہ ہوسکے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مرنے سے قبل حج بدل کی وصیت کرجائے، تاکہ لواحقین حج بدل کرسکیں۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون دیگر عورتوں کے ساتھ اپنے محرم کے بغیر حج پر نہیں جا سکتی۔
فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے:
’’والمحرم فی حق المرأۃ شرط شابة کانت أو عجوزًا إذا کانت بینها وبین مکة مسیرۃ ثلاثة أیام۔ وقال الشافعیؒ: یجوز لها أن تخرج فی رفقة معها نساء ثقات۔ واختلفوا فی کون المحرم شرط الوجوب أم شرط الأداء حسب اختلافهم فی أمن الطریق وفی السغنانی: والصحیح أنه شرط الأداء۔‘‘
(فتاویٰ تاتار خانیه،ج:۲،ص:۴۳۴)
ترجمہ:’’ اور محرم ساتھ ہونا عورت کے لیے شرط ہے خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی ہو جب اس کے درمیان اور مکہ کے درمیان تین دن کا راستہ ہو اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عورت کے لیے نکلنا جائز ہے جب اس کے ساتھ ثقہ عورتیں ہوں۔ فقہاء کرام میں اختلاف ہے کہ آیا محرم کا ہونا وجوبِ حج کے واسطے شرط ہے یا ادائیگی حج کے واسطے شرط ہے؟ جب کہ منشأ اختلاف ’’امن الطریق‘‘ کی تعریف کا اختلاف ہے۔ ’’السغنانی‘‘ میں ہے کہ صحیح قول یہی ہے کہ محرم ہونا ادائیگی حج کے لیے شرط ہے۔‘‘
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’منها المحرم للمرأۃ شابة کانت أو عجوزًا إذا کانت بینها وبین مکة مسیرۃ ثلاثة أیام۔‘‘
(فتاویٰ عالمگیری ،ج:۱،ص:۲۱۹)
ترجمہ:’’ان میں سے (ایک شرط) عورت کے لیے محرم کا ہونا ہے خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، جب کہ اس کے اور مکہ کے درمیان تین دن کی مسافت ہو۔‘‘
فقط واللہ اعلم
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون دیگر عورتوں کے ساتھ اپنے محرم کے بغیر حج پر نہیں جا سکتی۔
فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے:
’’والمحرم فی حق المرأۃ شرط شابة کانت أو عجوزًا إذا کانت بینها وبین مکة مسیرۃ ثلاثة أیام۔ وقال الشافعیؒ: یجوز لها أن تخرج فی رفقة معها نساء ثقات۔ واختلفوا فی کون المحرم شرط الوجوب أم شرط الأداء حسب اختلافهم فی أمن الطریق وفی السغنانی: والصحیح أنه شرط الأداء۔‘‘
(فتاویٰ تاتار خانیه،ج:۲،ص:۴۳۴)
ترجمہ:’’ اور محرم ساتھ ہونا عورت کے لیے شرط ہے خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی ہو جب اس کے درمیان اور مکہ کے درمیان تین دن کا راستہ ہو اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عورت کے لیے نکلنا جائز ہے جب اس کے ساتھ ثقہ عورتیں ہوں۔ فقہاء کرام میں اختلاف ہے کہ آیا محرم کا ہونا وجوبِ حج کے واسطے شرط ہے یا ادائیگی حج کے واسطے شرط ہے؟ جب کہ منشأ اختلاف ’’امن الطریق‘‘ کی تعریف کا اختلاف ہے۔ ’’السغنانی‘‘ میں ہے کہ صحیح قول یہی ہے کہ محرم ہونا ادائیگی حج کے لیے شرط ہے۔‘‘
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’منها المحرم للمرأۃ شابة کانت أو عجوزًا إذا کانت بینها وبین مکة مسیرۃ ثلاثة أیام۔‘‘
(فتاویٰ عالمگیری ،ج:۱،ص:۲۱۹)
ترجمہ:’’ان میں سے (ایک شرط) عورت کے لیے محرم کا ہونا ہے خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، جب کہ اس کے اور مکہ کے درمیان تین دن کی مسافت ہو۔‘‘
فقط واللہ اعلم