آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالسامان قسطوں پر دیاہے کاروبار کی نیت سے اور یہ سامان کی قیمت نصاب سے اوپر ہے، اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
جوابصورتِ مسئولہ میں اگر کوئی مال کسی شخص کو قسطوں میں فروخت کیا گیا ہے، اور قسطوں کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم نصابِ زکات کی مقدار سے زائد ہے تو مذکورہ رقم پر زکات واجب ہوگی، اور اس رقم کی زکات ادا کرنے کے دو طریقے ہیں:
1: ایک یہ کہ قسطوں کی جس قدر رقم بیچنے والے کو ملتی جائے،زکات کی مقررہ تاریخ آنے پر اس رقم کی زکات دیگر اموالِ زکات (مثلاً سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت وغیرہ) کے ساتھ ملاکرادا کردے اور قسطوں کی باقی رقم جو بعد میں وصول ہو، اس کی زکات وصول ہونے پر ادا کردے۔
2: دوسری صورت یہ ہے کہ پوری رقم( یعنی قسطوں پر فروخت کردہ سامان کی مکمل قیمت )کی زکات رقم وصول ہونے سے پہلے ہی دے دے، یہ بھی درست ہے۔ نیز اگر قسطوں کی مد میں ملنے والی مکمل رقم ملنے کے بعد زکات ادا کرنی ہے تو اس کی بھی اجازت ہے، تاہم اگر قرض کئی سال بعد وصول ہوا، جس کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی زکات ادا نہیں کی جاسکی تو گزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنی ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم."
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".
(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، ج:2، ص:305، ط:ايج ايم سعيد)
فقط واللہ اعلم
1: ایک یہ کہ قسطوں کی جس قدر رقم بیچنے والے کو ملتی جائے،زکات کی مقررہ تاریخ آنے پر اس رقم کی زکات دیگر اموالِ زکات (مثلاً سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت وغیرہ) کے ساتھ ملاکرادا کردے اور قسطوں کی باقی رقم جو بعد میں وصول ہو، اس کی زکات وصول ہونے پر ادا کردے۔
2: دوسری صورت یہ ہے کہ پوری رقم( یعنی قسطوں پر فروخت کردہ سامان کی مکمل قیمت )کی زکات رقم وصول ہونے سے پہلے ہی دے دے، یہ بھی درست ہے۔ نیز اگر قسطوں کی مد میں ملنے والی مکمل رقم ملنے کے بعد زکات ادا کرنی ہے تو اس کی بھی اجازت ہے، تاہم اگر قرض کئی سال بعد وصول ہوا، جس کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی زکات ادا نہیں کی جاسکی تو گزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنی ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم."
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".
(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، ج:2، ص:305، ط:ايج ايم سعيد)
فقط واللہ اعلم