آپ کے مسائل اور انکا حل
سوال میرا چھوٹا بھائی ہے، جو مدرسے میں پڑھ رہا ہے اور دین کی تعلیم حاصل کر رہا ہے ، اس نے اپنے ضروریات کے لیے دوستوں سے قرض لیا ہے ، اب وہ قرض ختم کرنے کے لیے کمپنی میں کام کرتا ہے، جب کہ میرے والد صاحب لوگوں کو زکوۃ کے پیسے دیتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ: کیا میرے بھائی پر بھی زکوۃ ہو سکتی ہے، جس سے وہ اپنا قرضہ ختم کر سکے، جب کہ وہ گھر سے ہی کھاتا پیتا ہے اور کام کاج نہیں کرتا، کیا اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں ؛تاکہ وہ کمپنی میں کام نہ کرے اور چھٹیوں میں اپنی نماز وغیرہ میں مشغول رہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ: کیا میرے بھائی پر بھی زکوۃ ہو سکتی ہے، جس سے وہ اپنا قرضہ ختم کر سکے، جب کہ وہ گھر سے ہی کھاتا پیتا ہے اور کام کاج نہیں کرتا، کیا اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں ؛تاکہ وہ کمپنی میں کام نہ کرے اور چھٹیوں میں اپنی نماز وغیرہ میں مشغول رہے۔
جوابواضح رہے کہ زکات اپنے اصول (والدین دادا/دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع(اولاد، پوتے /پوتی، نواسے/ نواسی وغیرہ) کو دینا جائز نہیں ہے، اس لیے اگر آپ کا بھائی زکات کا مستحق ہو تب بھی آپ کے والد کے لیے اس کو زکات دینا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر آپ خود صاحبِ نصاب ہیں اور اپنے مستحق بھائی کو قرض کی ادائیگی کے لیے اپنی زکات دینا چاہتے ہیں تو آپ اس کو زکات کی رقم مالک بناکر دے سکتے ہیں، بلکہ اس کو زکات کی رقم دینا زیادہ باعث ثواب ہوگا، زکات کی ادائیگی کا ثواب الگ اور رشتہ داری کا لحاظ رکھنے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب الگ۔
الفتاوى الهندية (1 / 188):
"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
فقط و اللہ اعلم
الفتاوى الهندية (1 / 188):
"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
فقط و اللہ اعلم