آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالکیا زکوۃ دیتے وقت زکوۃ دینے والا زکوۃ لینے والے کو یہ بتائے گا کہ یہ رقم زکوۃ کی رقم ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا ہم اپنی زکوۃ کی رقم مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جوابزکات ادا کرتے وقت مستحق کو بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکات ہے، اسے بتائے بغیر دینے سے یا ہدیہ کہہ کردینے سے بھی زکات ادا ہوجائے گی، بشرطیکہ دینے والے کی نیت زکات کی ہو۔
ملحوظ رہے کہ زکات کا مستحق وہ مسلمان ہے جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے اور استعمال کے سامان وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، ایسے شخص کو مالک بناکر زکات دینے سے زکات ادا ہوگی، اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکات لینا جائز ہے۔
لہذا مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں زکات کی رقم خرچ کرنا درست نہیں، اگر خرچ کی گئی تو زکات ادا نہیں ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 171):
"و من أعطى مسكيناً دراهم و سماها هبةً أو قرضاً و نوى الزكاة فإنها تجزيه، و هو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغي والقنية."
فقط واللہ اعلم
ملحوظ رہے کہ زکات کا مستحق وہ مسلمان ہے جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے اور استعمال کے سامان وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، ایسے شخص کو مالک بناکر زکات دینے سے زکات ادا ہوگی، اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکات لینا جائز ہے۔
لہذا مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں زکات کی رقم خرچ کرنا درست نہیں، اگر خرچ کی گئی تو زکات ادا نہیں ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 171):
"و من أعطى مسكيناً دراهم و سماها هبةً أو قرضاً و نوى الزكاة فإنها تجزيه، و هو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغي والقنية."
فقط واللہ اعلم