آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالکیا ٹی وی، واشنگ مشین، فریج ،اے سی اور پہننے کے اضافی کپڑوں پر زکات لازم ہو گی یا نہیں؟
جوابواضح رہے کہ زکات کی فرضیت کا ضابطہ یہ ہے کہ جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم (جو حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو ) یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر پہنچتی ہوتو ایسا شخص صاحبِ نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس شخص پر زکات واجب ہوتی ہے۔
چنانچہ اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو، مثلًا ایک تولہ سونا ہو اور اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ ہی چاندی ہو اور نہ ہی بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم سے زائد نقدی ہو ، نہ ہی مالِ تجارت ہو تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی،البتہ اگر سونے کے نصاب سے کم سونے کے ساتھ کچھ چاندی یا بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم کے علاوہ کچھ نقدی یا مالِ تجارت بھی ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت یا نقدی یا مالِ تجارت کے ساتھ ملایا جائے گا، اور اگر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے تو اس صورت میں کل مالیت کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرنا واجب ہو گا۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ گھر میں موجود واشنگ مشین، فریج، اے سی اور پہننے کے کپڑے (چاہے اضافی ہوں یا نہ ہوں) وغیرہ پر زکات لازم نہیں ہوتی، کیوں کہ زکات صرف مال نامی (سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت وغیرہ) پر ہی لازم ہوتی ہے۔
نوٹ: ’’ٹی وی‘‘ معصیت کا آلہ اور کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، اس لیے اسے دیکھنا ناجائز ہے، ٹی وی پر نظر آنے والی شکلیں تصویر ہیں، لہذا یہ تصویر سازی اور تصویر بینی کا ذریعہ ہے، ٹی وی دیکھنے والا موسیقی سننے سے محفوظ نہیں رہ سکتا، ٹی وی دیکھتے ہوئے لا محالہ غیر محرم پر نظر پڑ ہی جاتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر گھر میں ٹی وی رکھنا اور ٹی وی دیکھنا ناجائز ہے۔ ٹی وی چوں کہ مالِ نامی نہیں ہے اس لیے زکات کے وجوب میں تو اس کی مالیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، لیکن چوں کہ ٹی وی مطلقًا ضرورت سے زائد سامان کے زمرے میں آتا ہے؛ اس لیے قربانی، صدقہ فطر اور زکات لینے کی حرمت کے نصاب کا مالک ہونے یا نہ ہونے میں ٹی وی کا مالیت کا بھی اعتبار کیا جائے گا، اگر ٹی وی کی اپنی مالیت اکیلے یا دیگر ضرورت و استعمال سے زائد اشیاء کے ساتھ ملاکر نصاب کے بقدر ہوجائے تو ایسا شخص صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے زکات لینے کا مستحق نہیں رہے گا اور اس پر قربانی اور صدقہ فطر بھی واجب ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 258):
’’ (وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه.‘‘
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 267):
’’ (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض.‘‘
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 303):
’’ (وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعًا وجعلًا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة).‘‘
فقط واللہ اعلم
چنانچہ اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو، مثلًا ایک تولہ سونا ہو اور اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ ہی چاندی ہو اور نہ ہی بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم سے زائد نقدی ہو ، نہ ہی مالِ تجارت ہو تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی،البتہ اگر سونے کے نصاب سے کم سونے کے ساتھ کچھ چاندی یا بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم کے علاوہ کچھ نقدی یا مالِ تجارت بھی ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت یا نقدی یا مالِ تجارت کے ساتھ ملایا جائے گا، اور اگر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے تو اس صورت میں کل مالیت کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرنا واجب ہو گا۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ گھر میں موجود واشنگ مشین، فریج، اے سی اور پہننے کے کپڑے (چاہے اضافی ہوں یا نہ ہوں) وغیرہ پر زکات لازم نہیں ہوتی، کیوں کہ زکات صرف مال نامی (سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت وغیرہ) پر ہی لازم ہوتی ہے۔
نوٹ: ’’ٹی وی‘‘ معصیت کا آلہ اور کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، اس لیے اسے دیکھنا ناجائز ہے، ٹی وی پر نظر آنے والی شکلیں تصویر ہیں، لہذا یہ تصویر سازی اور تصویر بینی کا ذریعہ ہے، ٹی وی دیکھنے والا موسیقی سننے سے محفوظ نہیں رہ سکتا، ٹی وی دیکھتے ہوئے لا محالہ غیر محرم پر نظر پڑ ہی جاتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر گھر میں ٹی وی رکھنا اور ٹی وی دیکھنا ناجائز ہے۔ ٹی وی چوں کہ مالِ نامی نہیں ہے اس لیے زکات کے وجوب میں تو اس کی مالیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، لیکن چوں کہ ٹی وی مطلقًا ضرورت سے زائد سامان کے زمرے میں آتا ہے؛ اس لیے قربانی، صدقہ فطر اور زکات لینے کی حرمت کے نصاب کا مالک ہونے یا نہ ہونے میں ٹی وی کا مالیت کا بھی اعتبار کیا جائے گا، اگر ٹی وی کی اپنی مالیت اکیلے یا دیگر ضرورت و استعمال سے زائد اشیاء کے ساتھ ملاکر نصاب کے بقدر ہوجائے تو ایسا شخص صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے زکات لینے کا مستحق نہیں رہے گا اور اس پر قربانی اور صدقہ فطر بھی واجب ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 258):
’’ (وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه.‘‘
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 267):
’’ (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض.‘‘
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 303):
’’ (وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعًا وجعلًا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة).‘‘
فقط واللہ اعلم