آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالایک آدمی نے مطلقہ عورت سے شادی کی، عورت کی سابق شوہر سے ایک لڑکی ہے جس کی ملکیت میں کوئی مال و جائیداد نہیں ہے اور اس کا والد لاپتا ہے، اس کی مالی حالت کا بھی کچھ علم نہیں ہے۔ عورت کے موجودہ شوہر نے عقدِ نکاح کے وقت اس لڑکی کے نان نفقہ کی ذمّہ داری قبول کی تھی۔
1. اب یہ شخص (عورت کا موجودہ شوہر) لڑکی کو زکاۃ دے سکتا ہے؟ ۔
2. اور لڑکی کے جوان ہونے کی صورت میں اس سے پردہ ضروری ہے یا نہیں؟۔
جواب1. مذکورہ شخص نے جب اس لڑکی کی کفالت اپنے ذمہ لے لی تو اس کفالت کی وجہ سے مذکورہ لڑکی کے جو واجبات اس شخص کے ذمے لازم ہو گئے ان واجبات کو تو زکات کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں، البتہ اس کے علاوہ اگر زکات کی رقم دینا چاہے تو جائز ہو گا بشرطیکہ وہ اس کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرے۔
2. اگر بیوی سے صحبت ہو گئی ہو تو بیوی کی بیٹی محرم بن جاتی ہے، اور اس سے پردے کا حکم نہیں۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 50):
"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 30):
"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة ..."
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 129):
"(قوله: ولا إلى ولده وولد ولده وإن سفل) سواء كانوا من جهة الذكور أو الإناث و سواء كانوا صغارًا أو كبارًا؛ لأنه إن كان صغيرًا فنفقته على أبيه واجبة."
فقط واللہ اعلم
2. اگر بیوی سے صحبت ہو گئی ہو تو بیوی کی بیٹی محرم بن جاتی ہے، اور اس سے پردے کا حکم نہیں۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 50):
"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 30):
"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة ..."
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 129):
"(قوله: ولا إلى ولده وولد ولده وإن سفل) سواء كانوا من جهة الذكور أو الإناث و سواء كانوا صغارًا أو كبارًا؛ لأنه إن كان صغيرًا فنفقته على أبيه واجبة."
فقط واللہ اعلم