آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالمصیبت آفات اور سیلاب کے وقت گھر کی چھتوں اور مساجد میں اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جوابوبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کے بارے میں فقہائے احناف سے کوئی روایت منقول نہیں ہے، نیز قرآنِ مجید یا کسی حدیث میں بھی اس کا ذکر موجود نہیں ہے، البتہ شوافع کے ہاں مصائب ، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے، اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے بطور علاج اذان دینے کی گنجائش ہے، تاہم اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:
1
۔۔ اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔ 2
۔۔ اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔ 3
۔۔ مساجد میں یہ اذان نہ دی جائے۔ 4
۔۔ اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت اور اجتماعی کیفیت کا التزام نہ کیا جائے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة.
(قوله: لايسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: و لا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي - رضي الله عنه - ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اه".
(1/385،باب الاذان، ط: سعید)
البحرالرائق (3/10) میں ہے :
"( قوله : وخرج بالفرائض إلخ ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلايسن للمنذورة. ورأيت في كتب الشافعية: أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر قياساً على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول : ولا بعد فيه عندنا".
فقط واللہ اعلم
۔۔ اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔ 2
۔۔ اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔ 3
۔۔ مساجد میں یہ اذان نہ دی جائے۔ 4
۔۔ اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت اور اجتماعی کیفیت کا التزام نہ کیا جائے۔
فتاوی شامی میں ہے :
فقط واللہ اعلم