آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالکیا جنازہ سے پہلے تعزیت کی جاسکتی ہے،مثلًا اگر میت کا بیرون ملک انتقال ہواہے اور جنازہ تدفین کے لیے اپنے ملک لارہےہیں تو کیا میت پہنچنے سے پہلے اس کے گھرجاکر تعزیت (دعا) دی جاسکتی ہے؟ شرعًا ٹھیک ہے یا تعزیت جنازہ کےبعد شروع ہوگی؟
جوابتعزیت کا وقت میت کے انتقال سے لے کر تین دن تک ہوتا ہے، اس دوران کسی بھی وقت میت کے اہلِ خانہ اور اعزّہ و اقارب سے تعزیت کی جاسکتی ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ غسل و دفن سے فارغ ہونے کے بعد تعزیت کی جائے، کیوں کہ اس سے پہلے تو میت کے اہلِ خانہ میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوں گے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ تدفین کے بعد میت کی جدائی کا احساس زیادہ ہونے کی وجہ سے اہلِ خانہ کی وحشت اور غم بڑھ جاتا ہے لہٰذا اس وقت تعزیت کرنی چاہیے؛ تاکہ ان کا غم ہلکا ہوجائے۔
البتہ اگر میت کے پس ماندگان میت کے انتقال کی وجہ سے زیادہ حزن و ملال کی کیفیت میں ہوں اور انہیں قرار نہ آتاہو تو غسل و دفن سے پہلے تعزیت کرنا افضل ہوگا۔ اسی طرح اگر میت بیرونِ ملک سے لائی جارہی ہو تو اس دوران میت کے پہنچنے سے پہلے اہلِ خانہ چوں کہ تجہیز و تکفین میں مشغول نہیں ہوں گے؛ اس لیے میت کی نماز جنازہ اور تدفین سے پہلے بھی تعزیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ وفات سے تین دن کے اندر اندر تعزیت کرلینی چاہیے، اس کے بعد تعزیت کرنا پسندیدہ نہیں ہے، الا یہ کہ کسی عذر کی وجہ سے تین دن کے اندر نہ کرسکے تو اس کے بعد بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔
تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے، ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ہے، صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے:
"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى" یا "أَعْظَمَ اللّٰهُ أَجْرَكَ وَ أَحْسَنَ عَزَائَكَ وَ غَفَرَ لِمَیِّتِكَ."
اس سے زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔
ملحوظ رہے تعزیت کے دوران ہر آنے والے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لیے کوئی دعا مخصوص ہے، اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی تو کوئی حرج نہیں ہے۔
فقط والله أعلم
البتہ اگر میت کے پس ماندگان میت کے انتقال کی وجہ سے زیادہ حزن و ملال کی کیفیت میں ہوں اور انہیں قرار نہ آتاہو تو غسل و دفن سے پہلے تعزیت کرنا افضل ہوگا۔ اسی طرح اگر میت بیرونِ ملک سے لائی جارہی ہو تو اس دوران میت کے پہنچنے سے پہلے اہلِ خانہ چوں کہ تجہیز و تکفین میں مشغول نہیں ہوں گے؛ اس لیے میت کی نماز جنازہ اور تدفین سے پہلے بھی تعزیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ وفات سے تین دن کے اندر اندر تعزیت کرلینی چاہیے، اس کے بعد تعزیت کرنا پسندیدہ نہیں ہے، الا یہ کہ کسی عذر کی وجہ سے تین دن کے اندر نہ کرسکے تو اس کے بعد بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔
تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے، ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ہے، صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے:
اس سے زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔
ملحوظ رہے تعزیت کے دوران ہر آنے والے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لیے کوئی دعا مخصوص ہے، اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی تو کوئی حرج نہیں ہے۔
فقط والله أعلم