آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالمیت کا منہ دکھانے کے لیے جنازہ راستے میں روک سکتے ہیں؟
جوابمیت کو غسل دینے اور تکفین وتدفین کے انتظام کے بعد نمازِ جنازہ میں تاخیر سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، نیز نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم بھی حدیثِ مبارک میں وارد ہے، لہٰذا میت کا منہ دکھانے کے لیے جنازہ راستے میں روکنا نمازِ جنازہ یا تدفین میں تاخیر کا سبب ہونے کی وجہ سے پسندیدہ نہیں ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"(قوله: و يسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء و انصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، و عجلوا به؛ فإنه لاينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله». و الصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء." (2/ 193)
ترجمہ: " میت کی تجہیز و تکفین میں جلدی کی جائے، اس حدیث کی بنا پر جو ابو داوٗد نے روایت کی ہے کہ جب آں حضور ﷺ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ کی عیادت کر کے واپس لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ ان میں موت سرایت کر چکی ہے، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کر نا؛ تاکہ میں ان کی نماز پڑھاؤں اور ان کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرو ، اس لیے کہ مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کو اس کے گھر والوں کے درمیان روکا جائے"۔
اور میت پر موت کا اثر ظاہر ہوتے ہی فوراً تدفین اس لیے واجب نہیں کی گئی کہ کہیں یہ بے ہوشی نہ ہو، یعنی جب موت کا اطمینان ہوجائے تو پھر تدفین میں جلدی لازم ہوگی۔
حاشية السندي على سنن ابن ماجه (1/ 450):
"عن أنس بن مالك قال «لما قبض إبراهيم بن النبي صلى الله عليه وسلم قال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: لاتدرجوه في أكفانه حتى أنظر إليه فأتاه فانكب عليه وبكى».
قوله: (لاتدرجوه) من الإدراج أي لاتدخلوه، و الحديث يدل على أن من يريد النظر فلينظر إليه قبل الإدراج، فيؤخذ منه أن النظر بعد ذلك لايحسن، و يحتمل أنه قال ذلك؛ لأن النظر بعده يحتاج إلى مؤنة الكشف."
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے کفن نہ پہنانا جب تک کہ میں اُسے نہ دیکھ لوں، چناں چہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور (اسے دیکھ کر) اس پر جھک کر رونے لگے۔
اس روایت کے حاشیے میں علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ اسے کفن مت پہنانا۔ الخ) ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص میت کو دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ کفنانے سے پہلے اسے دیکھ لے، نیز اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کفنانے کے بعد میت کو دیکھنا پسندیدہ نہیں ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے اس وجہ سے فرمایا کہ کفنانے کے بعد چہرہ دیکھنے میں میت کا کفن کھولنے کی ایک گونہ مشقت بھی ہے۔
فقط واللہ اعلم
ترجمہ: " میت کی تجہیز و تکفین میں جلدی کی جائے، اس حدیث کی بنا پر جو ابو داوٗد نے روایت کی ہے کہ جب آں حضور ﷺ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ کی عیادت کر کے واپس لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ ان میں موت سرایت کر چکی ہے، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کر نا؛ تاکہ میں ان کی نماز پڑھاؤں اور ان کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرو ، اس لیے کہ مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کو اس کے گھر والوں کے درمیان روکا جائے"۔
اور میت پر موت کا اثر ظاہر ہوتے ہی فوراً تدفین اس لیے واجب نہیں کی گئی کہ کہیں یہ بے ہوشی نہ ہو، یعنی جب موت کا اطمینان ہوجائے تو پھر تدفین میں جلدی لازم ہوگی۔
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اسے کفن نہ پہنانا جب تک کہ میں اُسے نہ دیکھ لوں، چناں چہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور (اسے دیکھ کر) اس پر جھک کر رونے لگے۔
اس روایت کے حاشیے میں علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ اسے کفن مت پہنانا۔ الخ) ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص میت کو دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ کفنانے سے پہلے اسے دیکھ لے، نیز اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کفنانے کے بعد میت کو دیکھنا پسندیدہ نہیں ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے اس وجہ سے فرمایا کہ کفنانے کے بعد چہرہ دیکھنے میں میت کا کفن کھولنے کی ایک گونہ مشقت بھی ہے۔
فقط واللہ اعلم