آپ کے مسائل اور انکا حل
سوال کیا بغیر حیلہ کیے صرف ماہِ رمضان المبارک میں تراویح سنانے والے حافظ صاحب کی خدمت مسجد کے پیسوں سے کی جا سکتی ہے؟
جوابتراویح کی نماز میں قرآن مجید سنا کر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاعات پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ دینِ اسلام کے وہ مخصوص مناصب جس میں تعطل آجائے تو بڑا نقصان ہوگا، اس میں متاخرین نے اجرت لینے کی گنجائش دی ہے مثلاً تعلیم، اذان اور امامت۔
تاہم اگر بلاتعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اوردینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت میں داخل نہیں ہے۔ لیکن ملحوظ رہے کہ مسجد کے عمومی فنڈ سے یہ پیسے دینا جائز نہیں؛ اس لیے کہ وہ مسجد کے لیے وقف ہے۔
حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 56):
"فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!! اهـ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 127):
"إن حقيقة الأجر على الطاعة حرام فما يشبهه مكروه قيل إن هذا إنما يظهر على قول المتقدمين: قلت: لا يخفى فساده بل هو على قول الكل،؛ لأن المتأخرين إنما أجازوا الأجر على أشياء خاصة نصوا عليها من الطاعات وهي: التعليم والأذان والإمامة لا على كل طاعة."
فقط واللہ اعلم
تاہم اگر بلاتعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اوردینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت میں داخل نہیں ہے۔ لیکن ملحوظ رہے کہ مسجد کے عمومی فنڈ سے یہ پیسے دینا جائز نہیں؛ اس لیے کہ وہ مسجد کے لیے وقف ہے۔
فقط واللہ اعلم