آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالبنیان میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جوابنماز ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کی ادائیگی میں انتہائی ادب کی رعایت کرنی چاہیے، نمازی شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دے رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کر رہا ہوتا ہے، اور ایسے لباس میں اس عظیم الشان ذات کی بارگاہ میں حاضری دینا جسے پہن کر انسانوں کے معزز معاشرے کی مجلس میں جانا گوارا نہ کیا جاتا ہو، بڑی کاہلی اور محرومی کی بات ہے۔
لہٰذا کسی شرعی عذر کے بغیر صرف بنیان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اگر کوئی واقعی عذر ہو، مثلاً کپڑے ہی نہ ہوں، یا کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو مکروہ نہیں ہوگا۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:641، ط: دار الفكر-بيروت):
’’(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر.
و في الرد:
(قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة، وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر. شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز. (قوله: ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لايفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه؛ فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك؛ لأن مبنى الصلاة على الخشوع. اهـ.
قلت: واختلف في أن الخشوع من أفعال القلب كالخوف أو من أفعال الجوارح كالسكون أو مجموعهما؟ قال في الحلية: والأشبه الأول، وقد حكى إجماع العارفين عليه وأن من لوازمه: ظهور الذل، وغض الطرف، وخفض الصوت، وسكون الأطراف، وحينئذٍ فلايبعد القول بحسن كشفه إذا كان ناشئاً عن تحقيق الخشوع بالقلب. ونص في الفتاوى العتابية على أنه لو فعله لعذر لايكره، وإلا ففيه التفصيل المذكور في المتن، وهو حسن. وعن بعض المشايخ أنه لأجل الحرارة والتخفيف مكروه، فلم يجعل الحرارة عذراً وليس ببعيد اهـ ملخصاً.‘‘
فقط و الله أعلم
لہٰذا کسی شرعی عذر کے بغیر صرف بنیان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اگر کوئی واقعی عذر ہو، مثلاً کپڑے ہی نہ ہوں، یا کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو مکروہ نہیں ہوگا۔
فقط و الله أعلم