آپ کے مسائل اور انکا حل

سوالکافی دن پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ اگر جمعے کے خطبے کے دوران مقتدی حضرات بات چیت یا لایعنی امور میں مشغول ہوں تو امام کے لیے جائز ہے کہ خطبہ روک کر ان کو تنبیہ کر دے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جوابدورانِ خطبہ (خواہ جمعہ کا خطبہ ہو، یا نکاح وعدین کا خطبہ ہو) سامعین کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی بھی طرح کے کلام یا لایعنی امر سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ دو خطبوں کے درمیان ذکر بھی دل ہی دل میں کرنا چاہیے، زبان سے نہیں کرنا چاہیے، اور خطبے کے دوران کوئی بات چیت کرے یا کنکریوں سے کھیلے تو بھی دیگر سامعین کو دورانِ خطبہ جمعہ نصیحت نہیں کرنی چاہیے، تاہم مذکورہ حکم سے امام وخطیب مستثنی ہیں، لہذا خطیب دورانِ خطبہ یا دوخطبوں کے درمیان بوقتِ ضرورت امربالمعروف وغیرہ پر مشتمل کلام (جیسے مقتدی حضرات کو لایعنی امور سے منع کرنا وغیرہ)کرسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة؛ فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف إلا من الخطيب لأن الأمر بالمعروف منها بلا فرق بين قريب وبعيد في الأصح ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي وهو محتاج إليه، والإنصات لحقه تعالى، ومبناه على المسامحة والأصح أنه لا بأس، بأن يشير برأسه أو يده عند رؤية منكر، وكذا الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وختم وعيد على المعتمد."
(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:545، )
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:
"والتکلم به من غير الامام حرام."
(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:552، ط:قديمى كتب خانه)
فقط والله اعلم

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی