آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالمسجد میں دوسری جماعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ جواب مدلل درکار ہے ؟
جوابایسی مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ محلے والوں/ اہلِ مسجد کے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے، دوسری جماعت سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس سے پہلی جماعت کے افراد بھی کم ہوجائیں گے اور ہر ایک یہ سوچے گا کہ میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، جب کہ شریعتِ مطہرہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ اور نماز کی جماعت میں کثرت بھی مطلوب ہے، جب کہ ایک سے زائد جماعت کرانے میں کثرت کی بجائے تفریق ہے۔
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو مسجدِ نبوی میں جماعت ہوچکی تھی، آپ ﷺ نے گھر جاکر گھروالوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی، جب کہ مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملنا مشکل نہیں تھا، انہیں جمع کرکے دوسری جماعت کرائی جاسکتی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں جماعت (بلاکراہتِ تحریمی) جائز ہوتی تو حضور ﷺ بیانِ جواز کے لیے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد میں دوسری جماعت ادا فرماتے۔
ہاں ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے امام مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر آکر اپنی جماعت کراتے ہیں ، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے‘‘۔(کفایت المفتی ،جلد سوم ، ص:140،کتاب الصلوۃ ،دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.
(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ". (1/ 552، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو مسجدِ نبوی میں جماعت ہوچکی تھی، آپ ﷺ نے گھر جاکر گھروالوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی، جب کہ مسجد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملنا مشکل نہیں تھا، انہیں جمع کرکے دوسری جماعت کرائی جاسکتی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں جماعت (بلاکراہتِ تحریمی) جائز ہوتی تو حضور ﷺ بیانِ جواز کے لیے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد میں دوسری جماعت ادا فرماتے۔
ہاں ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے امام مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر آکر اپنی جماعت کراتے ہیں ، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے‘‘۔(
فتاوی شامی میں ہے:
فقط واللہ اعلم