آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالہندو مرنے کے بعد اپنے مردے کو جلا دیتے ہیں، اب دنیا کا جسم جو جل چکا ہے اس پے اب عذاب کیسے ہو گا ؟ مسلمان اپنے مردے کو دفنا دیتے ہیں، کچھ عرصے کے بعد جسم ختم ہو جاتا ہے، اس صورت میں اگر عذاب مسلمان مردے کو ہو رہا ہو گا تو کیا وہ عذاب ختم ہو جائے گا ؟
جوابانسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق اس ظاہری اور دنیوی عالم سے نہیں رہتا، بلکہ اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برز خ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر) کہتے ہیں، اور قبر سے مراد صرف مٹی کا گڑھا نہیں ہوتا، بلکہ انسان کا جسم مرنے کے بعد جہاں چلاجائے وہی اس کی قبر ہے، اسی مناسبت سے عمومًا عالمِ برزخ کے عذاب کو عذابِ قبر سے تعبیر کیا جاتاہے، الغرض مردہ دنیوی عالم میں نہیں ہوتا، بلکہ اس دوسرے عالم میں ہوتاہے اوراس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہواہے؛ لہٰذا اس پر اچھا یابُرا جو کچھ گزرتا ہے ، اس کا اس دنیا میں مشاہدہ عام طورپرنہیں ہوتا، مردہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور اس پر عذاب یاراحت کامعاملہ ہوتاہے؛ مگراس کے باوجود چوں کہ یہ معاملہ عالمِ برزخ کاہے ؛ اس لیے ہم کو محسوس ومشاہد نہیں ہوتا۔ اور ہمارے نہ دیکھنے یا محسوس نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردے کو تکلیف یا راحت محسوس نہیں ہورہی، بلکہ اسے راحت اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہم سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ایمان بالغیب باقی رہنے کی بدولت انسان اجر و ثواب کا مستحق بھی ہو اور اس کی آزمائش بھی ہو۔
حدیثِ پاک میں ہے کہ قبر میں جو عذاب دیا جاتاہے انسان اور جنات کے علاوہ تمام مخلوقات اسے محسوس کرتی ہیں، چوں کہ انسان اور جنات مکلف ہیں؛ اس لیے انہیں یہ دکھایا نہیں جاتا، تاکہ آزمائش اور انسان کا اپنا اختیار مکمل باقی رہے، اور اپنے اختیار سے اچھی یا بری راہ منتخب کرنے کی صورت میں اجر و ثواب اور سزا کا مستحق بنے۔
اس کی ایک مثال تقریبِ فہم کے لیے یہ ہے کہ انسان سوتاہے اور عالمِ یقظہ (بیداری) سے عالمِ نوم(سونے کے عالم) کوپہنچ جاتاہے اور اس دوسرے عالم (سونے کے عالم) میں وہ خواب کے اندرکبھی اچھی اور دل خوش کن باتیں اورکبھی اذیت ناک وتکلیف دہ امورکا مشاہدہ کرتاہے اور اس عالم میں دوسرو ں سے سنتااور گفتگوکرتاہے،کبھی دوڑتا، مارتا، کھاتا، پیتاہے اوراسی کے پاس بیٹھے ہوئے افراد کوجو عالمِ یقظہ میں ہیں اس دوسرے عالم کی کوئی خبرنہیں ہوتی، اوربسااوقات اس کی بتائی ہوئی باتیں سچ وحق ظاہرہوتی ہیں، اور اس سے بڑھ کر بعض اوقات خواب میں محسوس کی گئی جسمانی، مالی یا روحانی تکلیف حقیقت میں بھی لاحق ہوجاتی ہے اور بعض اوقات خواب میں حاصل ہونے والی راحت بیداری میں بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس مثال سے عالمِ برزخ اور عالمِ دنیا کافرق ظاہر ہوجاتا ہے؛ نیز اُس عالم کی بہت سی باتو ں کے ہمارے مشاہدہ میں نہ آنے کی بات قریب الفہم ہوجاتی ہے، ورنہ وہاں کے احوال کو اس دنیا میں رہتے ہوئے دیکھا اور سمجھا نہیں جاسکتا۔
حاصل یہ ہے کہ مردہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی دوسرے عالم میں ہے، جیسے سونے والا ہمارے درمیان میں ہوتے ہوئے بھی دوسرے عالم میں ہوتاہے، اورجس طرح وہ بہت سی اچھی اور بری باتیں محسوس کرتا اور اٹھتا، بھاگتا، کھاتاپیتاہے اوراس کی ان حرکات کوبازو بیٹھے ہوئے لوگ محسو س نہیں کرپاتے، اسی طرح عالمِ برزخ میں گزرنے والے حالات کاعلم مردہ، تومحسوس کرتاہے؛ مگر اِس عالم دنیا کے لوگ محسوس نہیں کرتے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ مردے کو دفن کرنے والے جب لوٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوتاہے کہ منکر نکیر اس سے حساب لینے آجاتے ہیں۔
بہرحال! اگر ہندو اپنے مُردوں کو جلا دیتے ہوں یا مسلمان قبر میں مٹی مٹی ہو جاتا ہو تو بھی جسم کا جل جانا اور مٹی مٹی ہو جانا راحت و عذاب کے لیے مانع نہیں ہے، کیوں کہ روح کا انسان کے جسم اور جسم کے اجزاء سے جو تعلق ہے وہ موت کے بعد بھی باقی رہتاہے، تاہم موت کے پردے کے پیچھے چھپ جاتاہے، جسے زندہ لوگ نہیں دیکھ سکتے، اور پھر انسانی جسم کے ذرات جہاں بھی ہوں روح سے ان کے تعلق کی وجہ سے روح اور جسم دونوں ہی عذاب کی تکلیف یا انعام کی راحت محسوس کرتے ہیں، اور یہ سلسلہ تاقیامت چلتا رہے گا۔
عذابِ قبر قرآن کی متعدد آیات اوراحادیثِ نبویہ سے ثابت ہے اوراس سلسلے میں اتنی حدیثیں آئی ہیں کہ بعض محدثین نے ان کومتواتر قراردیا ہے اوراہلِ اسلام کاشروع دور سے یہ متفقہ عقیدہ چلاآرہاہے کہ قبر میں نیکوں کوثواب اوربروں کوعذاب ہوتاہے، اس پر اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ اور یہ عقیدہ درحقیقت عقیدہ آخرت کا تکملہ و تتمہ ہے، جو اسلام کا بنیادی و اساسی عقیدہ ہے۔
فقط واللہ اعلم
حدیثِ پاک میں ہے کہ قبر میں جو عذاب دیا جاتاہے انسان اور جنات کے علاوہ تمام مخلوقات اسے محسوس کرتی ہیں، چوں کہ انسان اور جنات مکلف ہیں؛ اس لیے انہیں یہ دکھایا نہیں جاتا، تاکہ آزمائش اور انسان کا اپنا اختیار مکمل باقی رہے، اور اپنے اختیار سے اچھی یا بری راہ منتخب کرنے کی صورت میں اجر و ثواب اور سزا کا مستحق بنے۔
اس کی ایک مثال تقریبِ فہم کے لیے یہ ہے کہ انسان سوتاہے اور عالمِ یقظہ (بیداری) سے عالمِ نوم(سونے کے عالم) کوپہنچ جاتاہے اور اس دوسرے عالم (سونے کے عالم) میں وہ خواب کے اندرکبھی اچھی اور دل خوش کن باتیں اورکبھی اذیت ناک وتکلیف دہ امورکا مشاہدہ کرتاہے اور اس عالم میں دوسرو ں سے سنتااور گفتگوکرتاہے،کبھی دوڑتا، مارتا، کھاتا، پیتاہے اوراسی کے پاس بیٹھے ہوئے افراد کوجو عالمِ یقظہ میں ہیں اس دوسرے عالم کی کوئی خبرنہیں ہوتی، اوربسااوقات اس کی بتائی ہوئی باتیں سچ وحق ظاہرہوتی ہیں، اور اس سے بڑھ کر بعض اوقات خواب میں محسوس کی گئی جسمانی، مالی یا روحانی تکلیف حقیقت میں بھی لاحق ہوجاتی ہے اور بعض اوقات خواب میں حاصل ہونے والی راحت بیداری میں بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس مثال سے عالمِ برزخ اور عالمِ دنیا کافرق ظاہر ہوجاتا ہے؛ نیز اُس عالم کی بہت سی باتو ں کے ہمارے مشاہدہ میں نہ آنے کی بات قریب الفہم ہوجاتی ہے، ورنہ وہاں کے احوال کو اس دنیا میں رہتے ہوئے دیکھا اور سمجھا نہیں جاسکتا۔
حاصل یہ ہے کہ مردہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی دوسرے عالم میں ہے، جیسے سونے والا ہمارے درمیان میں ہوتے ہوئے بھی دوسرے عالم میں ہوتاہے، اورجس طرح وہ بہت سی اچھی اور بری باتیں محسوس کرتا اور اٹھتا، بھاگتا، کھاتاپیتاہے اوراس کی ان حرکات کوبازو بیٹھے ہوئے لوگ محسو س نہیں کرپاتے، اسی طرح عالمِ برزخ میں گزرنے والے حالات کاعلم مردہ، تومحسوس کرتاہے؛ مگر اِس عالم دنیا کے لوگ محسوس نہیں کرتے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ مردے کو دفن کرنے والے جب لوٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوتاہے کہ منکر نکیر اس سے حساب لینے آجاتے ہیں۔
بہرحال! اگر ہندو اپنے مُردوں کو جلا دیتے ہوں یا مسلمان قبر میں مٹی مٹی ہو جاتا ہو تو بھی جسم کا جل جانا اور مٹی مٹی ہو جانا راحت و عذاب کے لیے مانع نہیں ہے، کیوں کہ روح کا انسان کے جسم اور جسم کے اجزاء سے جو تعلق ہے وہ موت کے بعد بھی باقی رہتاہے، تاہم موت کے پردے کے پیچھے چھپ جاتاہے، جسے زندہ لوگ نہیں دیکھ سکتے، اور پھر انسانی جسم کے ذرات جہاں بھی ہوں روح سے ان کے تعلق کی وجہ سے روح اور جسم دونوں ہی عذاب کی تکلیف یا انعام کی راحت محسوس کرتے ہیں، اور یہ سلسلہ تاقیامت چلتا رہے گا۔
عذابِ قبر قرآن کی متعدد آیات اوراحادیثِ نبویہ سے ثابت ہے اوراس سلسلے میں اتنی حدیثیں آئی ہیں کہ بعض محدثین نے ان کومتواتر قراردیا ہے اوراہلِ اسلام کاشروع دور سے یہ متفقہ عقیدہ چلاآرہاہے کہ قبر میں نیکوں کوثواب اوربروں کوعذاب ہوتاہے، اس پر اہلِ سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ اور یہ عقیدہ درحقیقت عقیدہ آخرت کا تکملہ و تتمہ ہے، جو اسلام کا بنیادی و اساسی عقیدہ ہے۔
فقط واللہ اعلم