آپ کے مسائل اور انکا حل
سوالجن لوگوں پر قیامت آئے گی، ان کو عذاب قبر کیسے دیا جاۓ گا؟
جوابصورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے سوال کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ قیامت کے وقوع کے وقت حیات ہوں گے ان پر تو براہِ راست قیامت واقع ہوگی،ان کی موت کے بعد تدفین نہیں ہوگی تو ان کو عذاب قبر کیسے ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
انسان کی وفات سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے، اور برزخی زندگی کا انحصار صرف قبر پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ انسان کے انتقال کے بعد انسانی جسم کے اجزاء جہاں پائے جائیں خواہ قبر ہو، دریاوسمندر ہو،یا کسی جانور کا پیٹ ہو، یہ اس کے لیے قبر کے درجہ میں ہے، اور یہی برزخی زندگی کہلاتی ہے، موت کے بعد اسی عالم برزخ میں روحِ انسانی اپنے بدن یا جزوِ بدن کی طرف متوجہ ہوتی ہے؛ تاکہ وہ منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دے سکے، اور پھر اس روح کا جسم کے ساتھ کم از کم اتنا تعلق ضرور باقی رہتا ہے کہ وہ اس کی بنا پر قبر کی راحت وعذاب کو محسوس کرسکے، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان نہ تو دیکھ سکتا ہے، اور نہ ہی مشاہدہ کر سکتا ہے؛ بلکہ جیسے شارع علیہ الصلاۃ والتسلیم نے بیان فرمایا ہے، اسی کے مطابق مکلف پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں جب قیامت قائم ہوگی تو پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے نتیجے میں سب کچھ فنا ہوجائے گا، اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے پر سب زندہ ہوکر میدانِ محشر میں جمع ہوجائیں گے، پہلے اور دوسرے صور کے درمیان کافی وقت گزرے گا، بعض روایات میں کئی سال کا فاصلہ بیان کیا گیا ہے، اس دورانیے میں مرنے والوں کے ساتھ کیا احوال پیش آئیں گے؟ یہ اللہ پاک کے علم میں ہے، لہٰذا یہ دورانیہ عذابِ قبر (برزخ) کے لیے مانع نہیں ہے۔ نیز کس فرد کو کتنا عذاب دینا ہے؟ اور کب دینا ہے؟ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم اور قدرت میں ہے، بعض مرتبہ کم وقت میں سخت اور زیادہ تکلیف دی جاسکتی ہے، اور بعض اوقات نسبتًا کم تکلیف طویل عرصے تک دی جاسکتی ہے، اور یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ سے جڑے ہوئے ہیں، وہ ظالموں کی ضرور گرفت فرمائیں گے اور پورا پورا انصاف کریں گے؛ لہٰذا امورِ غیبیہ (نظر نہ آنے والی باتوں) کو اسے قادرِ مطلق کے سپرد کردینا چاہیے۔
فقط واللہ اعلم
انسان کی وفات سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے، اور برزخی زندگی کا انحصار صرف قبر پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ انسان کے انتقال کے بعد انسانی جسم کے اجزاء جہاں پائے جائیں خواہ قبر ہو، دریاوسمندر ہو،یا کسی جانور کا پیٹ ہو، یہ اس کے لیے قبر کے درجہ میں ہے، اور یہی برزخی زندگی کہلاتی ہے، موت کے بعد اسی عالم برزخ میں روحِ انسانی اپنے بدن یا جزوِ بدن کی طرف متوجہ ہوتی ہے؛ تاکہ وہ منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دے سکے، اور پھر اس روح کا جسم کے ساتھ کم از کم اتنا تعلق ضرور باقی رہتا ہے کہ وہ اس کی بنا پر قبر کی راحت وعذاب کو محسوس کرسکے، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان نہ تو دیکھ سکتا ہے، اور نہ ہی مشاہدہ کر سکتا ہے؛ بلکہ جیسے شارع علیہ الصلاۃ والتسلیم نے بیان فرمایا ہے، اسی کے مطابق مکلف پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں جب قیامت قائم ہوگی تو پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے نتیجے میں سب کچھ فنا ہوجائے گا، اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے پر سب زندہ ہوکر میدانِ محشر میں جمع ہوجائیں گے، پہلے اور دوسرے صور کے درمیان کافی وقت گزرے گا، بعض روایات میں کئی سال کا فاصلہ بیان کیا گیا ہے، اس دورانیے میں مرنے والوں کے ساتھ کیا احوال پیش آئیں گے؟ یہ اللہ پاک کے علم میں ہے، لہٰذا یہ دورانیہ عذابِ قبر (برزخ) کے لیے مانع نہیں ہے۔ نیز کس فرد کو کتنا عذاب دینا ہے؟ اور کب دینا ہے؟ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم اور قدرت میں ہے، بعض مرتبہ کم وقت میں سخت اور زیادہ تکلیف دی جاسکتی ہے، اور بعض اوقات نسبتًا کم تکلیف طویل عرصے تک دی جاسکتی ہے، اور یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ سے جڑے ہوئے ہیں، وہ ظالموں کی ضرور گرفت فرمائیں گے اور پورا پورا انصاف کریں گے؛ لہٰذا امورِ غیبیہ (نظر نہ آنے والی باتوں) کو اسے قادرِ مطلق کے سپرد کردینا چاہیے۔
فقط واللہ اعلم