آپ کے مسائل اور انکا حل

سوالیں نماز کے لئے نیت باندھنے جارہا تھا، لیکن مجھے ہنسی آرہی تھی، جس پر میری بیوی جوکہ نماز پڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی کہنے لگی کہ " ہاتھ کو اس طرح پیچھے پھینک کر ہنسی مذاق کو پیچھے پھینک دو"۔ ہاتھ کو پیچھے پھینکنے سے اس کی مراد رفع یدین کرنا تھی، لیکن اس کے لئے اس نے ہاتھ کو سیدھا کانوں تک نہیں رکھا بلکہ ہتھیلی کو پیچھے موڑ دیا، جس کی وجہ سے اس کی انگلیاں پیچھے چلی گئیں ( جیساکہ بہت سے لوگ کرتے ہیں ) ،اس کے بعد اس نے مذکورہ جملہ "ہاتھ کو پیچھے پھینک کر ہنسی مذاق کو پیچھے پھینک دو" کہا، اور اس کا مقصد رفع یدین کا استہزا کرنا نہیں تھا، بلکہ وزن اور قافیہ بنانا تھا، چونکہ ہنسی مذاق کے لئے پیچھے پھینکنے کا لفظ استعمال کرنا تھا اس لئے اس نے رفع یدین کیلئے بھی ہاتھ پیچھے پھینکنے کا لفظ استعمال کردیا اور وہ اپنا ہاتھ پیچھے لیکر گئی بھی تھی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس سے رفع یدین کا تمسخر یا استہزاء تو لازم نہیں آیا؟ اور کیا ہمارا نکاح ٹوٹ تو نہیں گیا؟
جوابصورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا مقصد چونکہ نماز کے کسی فعل / رکن کا مذاق اڑانا نہیں تھا، بلکہ چونکہ نماز کی ابتدا میں تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت ہاتھوں کو اوپر کانوں تک اٹھایا جاتا ہے جس سے مقصود نماز کے ماسوا تمام چیزوں کو اپنے پیچھے پھینکنے اور ترک کرنے کا اشارہ ہوتا ہے، اس لئے بظاہر مذکورہ خاتون نے بھی اسی حالت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ الفاظ استعمال کرلیے کہ "ہاتھ کو اس طرح پیچھے پھینک کر ہنسی مذاق کو پیچھے پھینک دو"، اس لئے مذکورہ جملہ کہنے سے ’’رفعِ یدین‘‘ کا تمسخر یا استہزاء لازم نہیں آیا اور نہ ہی نکاح ٹوٹا ہے، اس لیے تجدید ایمان اور تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ مذکورہ الفاظ میں کچھ بے ادبی کا شائبہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ خاتون کو توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
فتاوی تتارخانیہ میں ہے:
"وما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك".
( كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، ٧/ ٢٨٤، ط: زكريا)۔
فقط واللہ اعلم

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی