آپ کے مسائل اور انکا حل

سوالچار دن کے بعد خون دکھنا بند ہو گیا، پھر میں نے نماز ادا کر لی، پھر چھٹے دن شام میں خون دیکھا تو کیا کروں؟
جواباگر آپ اپنی پاکی اور ایام کے دنوں کی عادت اور آخری مہینہ کی اس کی تفصیل بتادیتیں تو حتمی جواب دیا جاسکتا تھا۔
اصولی طور پر جواب یہ ہے کہ اگر آپ کی یہ ماہواری شروع ہونے سے پہلے پندرہ دن پاکی کا عرصہ گزرچکا تھا، اور اس کے بعد ماہواری کے ایام شروع ہوگئے، اور چار دن بعد ماہواری کا خون بند ہوگیا تھا تو ایک نماز کا وقت گزرنے کے بعد غسل کرکے آپ کے لیے نماز پڑھنا ضروری تھا اور اس کے بعد جب دوبارہ چھٹے دن دوبارہ خون نظر آیا اور پھر دس دن کے بعد تک یہ خون جاری نہیں رہا تو یہ بھی حیض کا خون ہی شمار ہوگا، اور یہ سب دن حیض ہی کے شمار ہوں گے۔
اور اگر دس دن کے بعد تک بھی خون جاری رہے تو عادت کے ایام تک حیض کے دن شمار ہوں گے اور اس کے بعد استحاضہ (بیماری کا خون) شمار ہوگا، اور دس دن کے اندر ہی تو وہ عادت کی تبدیلی شمار ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 294):
"(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا"مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 62):
"لا يحل" الوطء "إن انقطع" الحيض والنفاس عن المسلمة "لدونه" أي دون الأكثر ولو "لتمام عادتها" إلا بأحد ثلاثة أشياء: إما "أن تغتسل"؛ لأن زمان الغسل في الأقل محسوب من الحيض وبالغسل خلصت منه، وإذا انقطع لدون عادتها لا يقربها حتى تمضي عادتها؛ لأن عوده فيها غالب فلا أثر لغسلها قبل تمام عادتها، أو تتيمم" لعذر "وتصلي" على الأصح؛ ليتأكد التيمم لصلاة ولو نفلاً، بخلاف الغسل؛ فإنه لا يحتاج لمؤكد. والثالث ذكره بقوله: "أو تصير الصلاة ديناً في ذمتها، وذلك بأن تجد بعد الانقطاع "لتمام عادتها" من الوقت الذي انقطع الدم فيه زمناً يسع الغسل والتحريمة فما فوقهما، و" لكن "لم تغتسل" فيه "لم تتيمم حتى خرج الوقت" فبمجرد خروجه يحل وطؤها؛ لترتيب صلاة ذلك الوقت في ذمتها وهو حكم من أحكام الطهارات"
فقط واللہ اعلم

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی